منٹو اور پریم چند کی حقیقت آمیز کہانیاں !!!

0
8
کامل احمر

فشی پریم چند اور سعادت حسن منٹو، اردو کے دو بڑے افسانہ نگار گزرے ہیں۔ دونوں نے اپنے اطراف میں پھیلی ہوئی کہانیوں کو ان کے کرداروں کے ساتھ سمیٹا ہے۔ فشی پریم چند بھوکے اور محرومی بھرے ہندوستان کی غربت اور مفلسی کو ادب میں لے کر آئے تھے۔ انہوں نے جو دیکھا جائزہ لیا اسے الفاظ کا لباس پہنا دیا۔ ان کے افسانوں میں سے یہ شاہکار افسانہ ”کفن” ہم کبھی نہیں بھول پائے جو19ویں صدی کے اوائل میں لکھا گیا تھا۔ فشی پریم چند کا اصل نام دھنپت رائے تھا۔ اور رسالے کے مدیر کے کہنے پر انہوں نے پریم چند لکھنا شروع کیا تھا۔ افسانہ کفن اردو رسالے جامعہ میں دسمبر1935میں شائع ہوا تھا۔ افسانے کفن میں دو کاہلوں گھیسو اور مادھو کی کہانی تھی جن کا تعلق ایک حفاکش اور بدنصیب عورت ”بدھیا” سے تھا۔ گھیسو اور مادھو باپ بیٹے تھے اور مدھیا گھیسو کی بیوی اور مادھو بیٹا ہے۔ پریم چند حقیقت کی ترجمانی بڑی بے باکی سے کی تھی۔ اور بتایا تھا کہ بھوک اور ناداری کا احساس انسان کو حیوانیت اور سفاکیت کی سطح پر لے آتا ہے۔ وہ رشتوں کی اہمیت کا احساس بھی بھول جاتا ہے ”کفن” میں رشتوں کی پامالی کی عکاسی بھی خوب ہے۔ اور آج کا سماج جو پاکستان کے غریب اور چھوٹے علاقوں میں پنپ رہا ہے۔وہ فشی پریم چند کے کفن کی عکاسی کر رہا ہے۔ ہندوستان میں نچلے طبقے کے کسان اور مزدور سماج سے مقابلہ کر رہے ہیں اور انہیں اپنی پہچان دینے میں ٹی وی کے بہت سے پروگرام جن میں کون بنے گا کروڑ پتی پیش پیش ہیں۔ ہم یہاں پوری کہانی تو نہیں دے سکتے لیکن مختصرا بتاتے چلیں کہ81سالہ کا ہل گھیسو کی بیوی مدھیا۔ درد سے تڑپ رہی ہے اور اس کے لئے وہ اور اسکا بیٹا کچھ نہیں کر پاتا دونوں تماشا دیکھ رہے ہیں اور انتظار میں ہیں کہ وہ مرے۔ بالاآخر وہ مرجاتی ہے تو ان کے پاس کفن کے بھی پیسے نہیں ہوتے۔ لوگ چندہ کرتے ہیں مگر دونوں باپ بیٹے شراب نوشی کر لیتے ہیں پاکستان میں آزادی کے76سال بعد سندھ میں یہ واقعات دیکھے جاسکتے ہیں ان پر حکومت کرنے والا ڈاکوئوں کا ٹولہ ہے۔ جو بھٹو کو تو زندہ رکھے ہوئے ہے لیکن عوام کو بھوکا مار رہا ہے۔ سب سے برا حال اسی صوبہ کا ہے جو18ویں ترمیم کے تحت وفاق سے اپنا حصہ تو لے لیتا ہے لیکن عوام کو بھوکا مارتا ہے۔ سندھ کے ایک چھوٹے گائوں جو بدین کے قریب ہے میں ایک شخص نے جس کے پاس کچھ نہ تھا۔ کفن تک کے پیسے نہ تھے۔ اپنی مردہ بیوی کی لاش کو قریبی نہر میں بہا دیا تھا یہ خبر یقیناً صاحب اقتدار تک پہنچی ہوگی۔ لیکن کچھ نہیں ہوا۔ ہم نے لاڑکانہ جیکب آباد کا کئی بار سفر کیا تھا سوائے شکار پور کے جہاں ہندو اکثریت تھی۔ دونوں جگہوں پر غربت کی عکاسی تھی۔ اور کئی ”کفن” جیسی کہانیاں جنم لے رہی تھیں یہ بات1960کی ہے اور اب تک ویڈیو میں جو کچھ دیکھا ہے تو آنسو بہانے کو دل چاہتا ہے گلیاں گندے نالے بن جاتے ہیں بارش میں سڑکیں بہہ جاتی ہیں۔ اس تمام خاکے کو ہم لفظی جامہ پہنانے سے قاصر ہیں۔ سعادت حسین منٹو نے جس مہارت سے تقسیم ہند کے بس منظر میں کہانیاں لکھی ہیں وہ کہانیاں کم اور حقیقت اور مستقبل کی نشاندہی کرتی ہیں۔ نیا ”قانون” منٹو کا افسانہ چیخ چیخ کر عدلیہ اور قانون پر طنز کر رہا ہے اور دل ہلا دینے والا افسانہ ”کھول دو” کسی مزید تعارف کا محتاج نہیں کہ تقسیم کے وقت جو امرتسر کے آگے پیچھے ٹرینوں کو کاٹ کر وہاں کے پگڑی والے لوگ لڑکیوں اور عورتوں کو اٹھا کر لے گئے تھے وہ حقیقت ہے اور اس کے بعد وہ لڑکیاں کیمپوں سے دستیاب ہوئی تھیں تو انکی نفسیات ہی بدل چکی تھی۔ ”کھول دو” سماج اور اس کے لئے کام کرنیوالوں کے منہ پر طمانچہ ہے۔ صرف ان دو لفظوں میں منٹو نے وہ کچھ بھر دیا ہے۔ کہ ایک مسلمان ریاست اور فلاحی کام کرنے والوں کا حلیہ بھی مشکوک ہوچکا ہے۔”زینب” کی اس سے بھی تکلیف دہ کہانی ہے دس سالہ زینب کی لاش کوڑے کے ڈھیر پر پھینک دیا گیا تھا اور یہ کام وہاں کے مسلمانوں کا تھا۔ جو خود کو مسلمان کہتے ہیں اس میں صرف ایک آدمی شامل نہیں تھا۔ کئی مادھو اور گھیسو تھے جو پکڑے نہیں گئے اس طرح کے واقعات جاری ہیں ان پر کوئی روک تھام نہیں ایک ہائی وے کا واقعہ بھی ہم نہیں بھولے کہ عورت گاڑی کے ساتھ اپنے بچوں کے ساتھ مدد آنے کا انتظار کرتی ہے لیکن مدد کی جگہ دو بھیڑیئے انسانی حلیہ میں آکر بچوں کے سامنے وہ کچھ کر جاتے ہیں۔ کہ جانور بھی اجازت کے بغیر اپنی مادہ کے ساتھ نہیں کرتا۔ اردو میں نام ہے اس بدکاری کا ”زنابالجبر” اور یہ اور اس جیسے سینکڑوں واقعات تقسیم ہند کے بعد پاکستان میں ہو رہے ہیں۔ غربت اور ناداری میں پلے یہ انسان مسلمان ہیں کیا۔ اور جو امیر زادے ہیں۔ کئی سال لے نئے ماحول کی پیداوار ایک پاکستانی امریکن لڑکے نے اسلام آباد میں اپنے گھر کے اندر اپنے ملازمین کی نگرانی میں زنا کیا اور لڑکی کا سر تن سے جدا کردیا۔ لڑکے کا نام ظہیر جعفر(30)ہے۔ اُسے پھانسی کی سزا ہوئی تھی لیکن دو سال گزرنے کے بعد بھی اپیلیں جاری ہیں لڑکی جو کسی سابقہ ایمبیسڈر کی بیٹی تھی اس کا نام مقدم تھا۔ ایسے واقعات پر لوگ آنسو نہیں بہاتے کہ یہ اپنے رویوں اور کرتوت سے انسان نہیں ہیں۔ ظہیر جعفر کئی بار اپنا بیان بدل چکا ہے۔ یہ ہے پاکستان کا نیا قانون کہ کسی بھی بڑے آدمی یا سیاست داں کو سزا نہیں ہوتی۔ وہ آزاد ہوجاتا ہے۔
کراچی میں ایک پڑوسی لڑکے نے دوسرے پڑوسی لڑکے پر جس کی بہن کو وہ چھیڑتا تھا جو شاہ زیب کی بہن تھی اور جب شاہ زیب نے اسے منع کیا تو قاتل شاہ رخ جتوئی نے جو بڑے سندھی گھرانے کا اوباش لڑکا ہے نے پستول سے شاہ زیب کو قتل کردیا۔ پھانسی کی سزا ہوئی، لیکن جیل سے رہا کردیا گیا جیل سے نکلتے وقت اس کے انگلیوں سےVکا نشان بنایا۔ اور ہجوم میں باہر آیا۔
فشی پریم چند کے کردار غربت کے پلے تھے لیکن پاکستان میں اوپر دیئے گئے دو واقعات کے کردار مالدار اور اثررسوخ والے تھے تو انسانی خصلت کتنی بدل چکی ہے۔منٹو نے حقیقت لکھی ہے پریم چند نے غربت کی عکاسی کی ہے۔ لیکن تقسیم کے وقت جو اغوا، قتل غارت گری ہوئی اُسے کیا نام دیا جائے۔ کیا یہ انسان کی نفسیات ہے کہ وہ یہ کچھ کرسکتا ہے دنیا اس وقت سرمایہ کاروں کی لپیٹ میں ہے اور ہر ایک کے ہاتھ میں کریڈٹ کارڈ تھما کر لوگوں کو لوٹ بار سے دور رکھا ہے اور خود یہ کچھ کرکے بیرون ملک چھپ کر عیاشی کر رہے ہیں۔ لالچ نے ان کے دماغ میں مستقل جگہ بنالی ہے نالدار امریکن فراڈ کرکے بھی جیل جاتے ہوئے انگلیوں سےVکا نشان بناتا ہے مسکراتا ہے اور کہتا ہےGREED IS GOOD۔لیکن زرداری جنرلز اور نوازشریف فیملی میڈیا پر فاتحانہ انداز سر اٹھا کر بولتے ہیں!! ۔
٭٭٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here