نیویارک (پاکستان نیوز) امریکہ نے پاکستان کو غیر محفوظ ایٹمی ملک قرار دینے پر یوٹرن لیتے ہوئے عظیم اتحادی قرار دیا جبکہ اس بات کی بھی یقین دہانی کرائی ہے کہ پاکستان کے ایٹمی اثاثوں کی سیکیورٹی پر مکمل اعتماد ہے ، دفتر خارجہ کے ترجمان ویدنت پٹیل نے پریس بریفنگ میں کہا کہ ہمیں پورا اعتماد ہے کہ پاکستان کے جوہری ہتھیار مکمل محفوظ ہیں اور پاکستان اپنے ایٹمی اثاثوں کی حفاظت کی صلاحیت رکھتا ہے۔ ایک صحافی نے امریکی صدر کے حوالے سے سوال کیا تو انہوں نے کہا امریکا کو پاکستان کی اپنے جوہری اثاثوں کی حفاظت کی صلاحیت اور عزم پر اعتماد ہے۔ایک سوال کے جواب میں ترجمان امریکی محکمہ خارجہ نے کہاکہ امریکہ پاکستان کے ساتھ دیرینہ تعلق کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں، امریکا نے محفوظ اور خوشحال پاکستان کو ہمیشہ اپنے مفاد میں دیکھا ہے، ہماری مضبوط شراکت داری ہے اور پوری لگن سے اس پر کام جاری رکھیں گے،امریکہ کے سفیر کی طلبی سے متعلق سوال پرانہوں نے کچھ بھی کہنے سے گریز کیا۔صدر جوبائیڈن نے تیرہ اکتوبر کو ایک تقریب میں پاکستان پر الزام لگایا تھا کہ دنیا کی خطرناک ترین قوموں میں سے ایک پاکستان ہے، جس کا جوہری پروگرام بے قاعدہ ہے۔امریکی صدر کے غیر ذمہ دارانہ بیان پرپاکستان نے شدید ردعمل دیا تھا اور امریکی سفیرکو دفترخارجہ طلب کیا گیا۔اپنے سابقہ بیان میں صدر جو بائیڈن نے کہا ہے کہ اْن کے خیال میں پاکستان شاید ‘دنیا کے خطرناک ترین ممالک میں سے ایک ہے’ جس کے پاس موجود جوہری ہتھیار ‘غیر منظم’ ہیں۔ اسلام آباد اور واشنگٹن کے تعلقات میں اْتار چڑھاؤ کوئی نئی بات نہیں اور حالیہ دنوں دونوں ممالک کے درمیان تعلقات بظاہر بہتری کی طرف بھی جاتے دکھائی دیے۔پاکستان کی فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ اکتوبر کے آغاز میں واشنگٹن کے دورے پر گئے جہاں انھوں نے امریکی سیکریٹری دفاع لوئڈ آسٹن سے ملاقات کی۔ جنرل باجوہ نے یہ دورہ اپنی ریٹائرمنٹ سے چند ہفتے قبل کیا اور بظاہر اس ملاقات کا مقصد پاکستان کا امریکہ کی جانب سے سیلاب زدہ علاقوں کی مدد کرنے پر شکریہ ادا کرنا تھا۔اگر ان دونوں ممالک کے آپس کے تعلقات پر نظر دوڑائیں تو 1947 میں تقسیم ہند کے بعد امریکہ نے پاکستان کو ایک آزاد ریاست کے طور پر قبول کر لیا تھا لیکن ماہرین کی رائے ہے کہ اس تعلق کی بنیاد ‘دفاعی اور معاشی مدد’ کے گرد رہی ہے۔جبکہ سرد جنگ کے دوران پاکستان نے اپنے پڑوسی سوویت یونین کے بجائے امریکہ سے تعلقات برقرار رکھنے کو ترجیح دی مگر تاریخ دان یہ دعویٰ بھی کرتے ہیں کہ 1950 کی دہائی میں لیاقت علی خان کے دورِ حکومت میں اس وقت کے امریکی صدر ہیری ٹرومین نے پاکستان میں سی آئی اے کے ہوائی اڈے قائم کرنے کا مطالبہ کیا تھا جس کا مقصد سابق سوویت یونین پر نظر رکھنا تھا تاہم کہا جاتا ہے کہ لیاقت علی خان نے اس کی اجازت نہیں دی تھی۔اسی دہائی میں امریکہ اور پاکستان نے دفاعی معاہدہ پر بھی دستخط کیے تھے جس کے تحت پاکستان سے کئی فوجی سپاہی ٹریننگ کے لیے امریکہ گئے تھے۔1956 میں ایک بار پھر صدر ڈوائٹ آئزن ہاور نے پاکستان سے پشاور کا ایئر سٹیشن لیز پر لینے کا مطالبہ کیا تھا تاکہ سوویت یونین پر نظر رکھی جا سکے جس کی اجازت اس وقت کے پاکستانی وزیرِ اعظم سہروردی نے دے دی تھی۔بائیڈن کے پاکستان سے متعلق بیان کو چند ماہرین اور سابق وزرا اس نظریے سے دیکھ رہے ہیں کہ اب ایک بار پھر پاکستان سے ‘کچھ منوانے یا سائیڈ لینے کا مطالبہ کیا جا سکتا ہے،’جو بائیڈن کے اس بیان نے پاکستان میں سفارتی اور سیاسی ہلچل پیدا کی ہے، اسلام آباد کی خارجہ پالیسی سے متعلق کتابوں کے مصنف شجاع نواز نے کہا کہ ‘صدر بائیڈن پاکستان کو بہت اچھے طریقے سے جانتے ہیں۔ ان کی پاکستان کے امرا سے تعلقات کی تاریخ بہت لمبی ہے۔ ان کو پاکستان میں موجود عدم توازن کا پتا ہے۔ تو یہ کوئی حیرانی کی بات نہیں ہے بلکہ ان کی پریشانی کی عکاسی ہوتی ہے کیونکہ وہ (صدر بائیڈن) پاکستان کے لیے فکر مند ہیںتاہم انھوں نے کہا کہ ‘غیر معمولی بات یہ ہے کہ انھوں نے پاکستان کے لیے ان جذبات کا اظہار برملا انداز میں کیا ہے جس میں انھوں نے دیگر ممالک کا تذکرہ بھی کیا ہے۔ اور ان کا یہ بیان غیر رسمی نہیں بلکہ آفیشل ٹرانسکرپٹ کا حصہ ہیں۔ عموماً ایسے بیانات نجی طرز کی گفتگو کے دوران دیے جاتے ہیں۔سابق سیکریٹری خارجہ اعزاز چوہدری کا خیال ہے کہ پاکستان کے جوہری ہتھیاروں کے پروگرام کو غیر منظم کہنا ‘غلط ہے اور حقائق کے بالکل برعکس ہے۔ خود امریکہ نے کئی مواقعوں پر پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے منظم ہونے کی تائید کی ہے۔اعزاز چوہدری 2013 سے 2017 تک پاکستان کے سیکریٹری خارجہ رہے ہیں اور ماضی میں وہ خود ‘جوہری دفاعی نظام کی روک تھام پر ہونے والے مذاکرات کا حصہ’ رہے ہیں ‘جن میں پاکستان نے تمام تر خدشات کا سامنا کیا ہے اور انھیں حل کیا ہے۔دفاعی تجزیہ کار اور ماہر سید محمد علی نے کہا کہ یہ بائیڈن کا ایک سیاسی بیان ہے۔ ‘رواں سال مارچ کی بات ہے کہ انڈیا نے، بقول ان کے ‘غلطی’ سے، پاکستان کی سرحد میں میزائل چھوڑ دیا تھا جس سے معجزاتی طور پر کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔ اس بات پر امریکہ نے کسی قسم کے خدشات کا اظہار نہیں کیا۔ لیکن یہی غلطی اگر پاکستان سے سرزد ہوئی ہوتی تو اقوامِ متحدہ کا ہنگامی اجلاس بلوا لیا جاتا۔امریکہ کے وِلسن سینٹر تھنک ٹینک میں ایشیا پروگرام کے ڈپٹی ڈائریکٹر مائیکل کوگلمین نے ٹوئٹر پر اپنی رائے دیتے ہوئے کہا ہے کہ یہ ایک عجیب طرز کا بیان ہے جو عام طور پر امریکی حکام عوامی سطح کی ملاقاتوں کے دوران نہیں دیتے۔