فنڈریزنگ، کنوینش، اجتماع نیویارک سے شکاگو!!!

0
142
کامل احمر

”بانٹنے کی عادت ڈالئے، اشیائ، جذبے(پیار) اور خوشیاں بھی”یہ ہمارے دوست اور تعلیم کے پیشے سے جڑے پنجاب میں ایک سکول کے ریٹائرڈ پرنسپل ڈاکٹر لطیف جاوداں کے الفاظ ہیں اور اس میں اسلام اور اس سے جڑی انسانیت کا عنصر بھی جو ہمارے پیغمبر رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا پیغام بھی ہے ہم ایک بات اس سے جوڑتے چلیں کہ ”دُکھ” بھی بانٹتے چلیں ،افراتفری کے اس دور میں جہاں قدرتی آفات کے علاوہ حکمرانوں کی بے حسی اور ظالمانہ سلوک نے ایک عام انسان کی زندگی کو پامال کردیا ہے، اس کی حالیہ مثال پاکستان میں سیلاب کی تباہ کاریاں ہیں جس کے لئے پچھلے82سالوں میں کوئی انتظام نہیں کیا گیا ،سوائے ایوب خان کے دور میں بند باندھے گئے اور آج کے نالائق حکمران کہتے ہیں یہ سب ماحولیاتی تبدیلی کے نتیجہ میں ہوا ،مان لیا لیکن اسکی روک تھام کے لئے انہوں نے دوسرے ملکوں کی تدابیر پر کیوں عمل نہیں کیا یہ ہی بات ہم پچھلے جمعہ حمزہ مسجد میں ناسو کائونٹی کے چیف ایگزیکوٹو(میئر) بروس بلیک مین(ریپلکن) اور ان سے جڑے پاکستانی حضرات سے بھی سنی ۔ظاہر ہے وہ امریکن کو پاکستانی حکمرانوں کی پچھلے50سالوں کی لوٹ مار اور بے حسی نہیں بتانا چاہتے تھے کہ امریکی امداد نہ رک جائے لیکن یہ انکی بھول ہے ،امریکی باخبر میں اس بات سے بروس بلیک میں نے فخر یہ کہا کہ ناسا کائونٹی(لونگ آئی لینڈ نیویارک) ہیلی کائونٹی ہے جو پاکستان میں ہونے والی تباہی کے نتیجہ میں مدد کرنا چاہتی ہے ،انہوں نے وہاں موجود عوام سے اپیل کی کہ زیادہ سے زیادہ فنڈ زمیں پیسے دیں اور ہم نے دیکھا ہے کہHELPING HANDنے پاکستان میں اپنے ہاتھ لمبے کردیئے ہیں ،وہ سیلاب زدہ علاقوں میں ہرجگہ موجود ہیں یہ ایک جماعت ہے جس ک لئے ہم کہینگے کہ دل کھول کر عطیات دیں۔ اس سے کچھ ہی دیر پہلے ہم محمدی مسجد میں تھے جہاں نیوز پاکستان کے مجیب لودھی گتے کا ایک بڑا بکس لئے کھڑے مسلمانوں سے اپیل کر رہے تھے اور ہم نے دیکھا کہ صرف آدھ گھنٹے میں وہ کارٹن ڈالروں سے بھر گیا جس میں ایک صاحب نے ڈالرز کی گڈی جیب سے نکال کر ڈالی وہ سو سو ڈالر کے نوٹ تھے ہم ان صاحب کو نہیں جانتے لیکن دعا کرسکتے ہیں کہ اللہ ان کے کام میں برکت دے اور ان کی نیکیاں آنے والی نسلوں کے کام آئیں۔ یہ ہفتہ لیبر ڈے ایک اینڈ ہوتا ہے پورے شمالی امریکہ میں اور ایسے موقع پر پورے امریکہ میں بڑی بڑی تنظیمیں اپنے اپنے پروگرام کنوینش اور اجتماع کرتی ہیں پنسلوانیا میں تبلیغی جماعت کا اجتماع تھا۔ ہم وہاں پہنچے شام کے وقت وہاں کے ایکسپو ہال میں کوئی دس ہزار کا اجتماع تھا ،ماشاء اللہ، جماعت اجتماع کے لئے مشہور ہے، نیویارک میں اسکے لئے ڈاکٹر تیلی نے بہت کام کیا ہے ایک خاص بات یہ کہ یہ اجتماع جماعت پیسے بٹورنے کے لئے نہیں بلکہ آگاہی کے لئے کرتی ہے اور ہر ممبر اپنے پیسے سے اس میں شرکت کا بوجھ اٹھاتا ہے آپ اندازہ کرسکتے ہیں کہ اجتماع میں شریک ہر کوئی جماعت کے زیرانتظام کھانے پینے کی چیزیں بہت سستے داموں لے کر مزے کر رہا تھا۔ بتاتے چلیں صرف چھ ڈالر میں لنچ اور ڈنر(مٹن، چکن، روٹی سلاد، چاول پانی) اور3ڈالر میں حلوہ پوری چھولے اور چائے جو کسی ریستوران میں12ڈالر میں بھی نہ ملے۔ کہنے کا مقصد یہ کہ جماعت اپنا فنڈ نہیں بتاتی ہر چند کو ہم اس میں شریک نہیں لیکن ہم ان سے متاثر ہیں۔
دوسرے دن یعنی اتوار کو ہم شکاگو میں تھے یہ ہمارا پسندیدہ شہر ہے اور لوگوں کو خاص کر نیویارکر کو تعجب ہے کہ شکاگو میں تو بے حد کرائم ہیں لیکن ہم بتاتے چلیں یہاں مفت خورے بہت کم ہیں۔ فراڈی اور اپنے اپنے ملکوں سے بنکوں سے قرضہ لے کر بھگوڑے بھی ہیں۔ البتہ یہاں پرانے لوگوں کی جن کا تعلق حیدر آباد دکن سے ہے جو تعلیم یافتہ ہیں۔ یہاں پاکستانی ریستوران اپنا نام بنا چکے ہیں جیسے صابری نہاری عثمانیہ اور شاہی اور طہورا مٹھائی کے نام سے مشہور ہے۔ افسوس نیویارک میں پاکستانیوں کی دوگنی تگنی تعداد ہے لیکن کوئی ریستوران اپنا نام نہیں بنا سکا ہے بہتر سروس اور لذیذ کھانوں کے تعلق سے اور یہ شرم کی بات ہے صرف ایک نام ہے ساگر(چائینیز) جو بنگلہ دیش ہے اور لاجواب ہے سروس اور قیمت دونوں کے لحاظ سے شکاگو میں اچھے ریستوران کا مینو مہنگا تو ہے لیکن سروس اور خوش ذائقہ کھانا ملتا ہے۔
ہمیں اپنا(ISNA)کے کنوینش(سہ روزہ) میں جانے کا اتفاق ہوا۔ جہاں کوئی پاکستانی میڈیا نظر نہیں آیا(لفافے کی امید نہیں) البتہ ہم ٹی وی کا نام اسپانسرز میں تھا۔ کنوینشن میں فلم کا بھی اہتمام تھا اور شادی میں لڑکا لڑکی کے ملاپ کا بھی وسیع وعریض کئی ہال تھے جس کا ڈائیننگ ہال، لکچر ہال، سینما ہال کے علاوہ500بوتھ مختلف اقسام کے تھے کپڑوں سے لے کر میک اپ اور عربی کیلی گرافی(لکڑی پر کندی) مڈل ایسٹ کے کھانے پاکستانی بریانی سموسہ چائے کے بوتھ تھے۔ قیمتیں کافی اچھی رکھی تھیں بریانی پلیٹ8ڈالر اور سموسہ5ڈالر شکاگو میں فلسطینی ریستوران الپوادی کا اسٹال بھی تھا جہاں12اور اٹھارہ ڈالر کی پلیٹ تھی۔ ہم جان سکتے ہیں قیمتوں کے زیادہ ہونے کی وجہ کہ کرایہ کافی تھا اس لئے کہ ہال کا کرایہ بھی کم نہ سنا کنوینشن اس لئے بھی مشہور ہے کہ اس میں مسلمان ممالک کے لوگ مختلف ہالوں میں لکچر دیتے نظر آئے جو ایک فیس ادا کرنے کے بعد سنے جاسکتے ہیں۔ چائے کے سٹال پر ایک عرب نوجوان نے آکر کریڈٹ کارڈ دیا اور کیشیئر سے کہا کہ میری طرف سے دس لوگوں کو چائے پلائو اور ہم سے گفتگو کرکے آگے چلا گیا، اس کا نام انصاری تھا ،اسی طرح ایک اسٹال پر ہم قرآنی آیات لکڑی پر خوشخط طریقے سے کدائی(نقش نگار) کی گئی دیکھنے کو ملی لاتعداد قیمتیں مناسب آرٹسٹ علی اعجاز ان کی دوکانPALI ARTCRAFTبرانکس میں بھی ہے یہ فلسطینی ورثہ ہے وہیں ایک فلسطینی نوجوان سے بات ہوئی یاسر عرفان اور محمود عباس کے تعلق سے تو لگا یہ دونوں بھی نوازشریف اور زرداری سے کم نہیں اور وہاں کے حالات ان ہی کے مرہون منت ہیں آنکھیں کھلیں۔ بدعنوانی کا یہ ورثہ فلسطین میں بدرجہ اتم ہے۔ اور صرف تین افراد(محمود عباس) اسکو آگے بڑھا رہے ہیں انہیں کوئی فکر نہیں کہ فلسطین صفحہ ہستی سے مٹ جائے(مٹ رہا ہے) نوجوان نے ہمیں منع کیا کہ اس کا نام نہ دیں ورنہ وہ غازہ نہیں جاسکے گا اس نے یہ بھی بتایا کہ محمود عباس کی صدارت کی ٹرم ختم ہوچکی ہے۔ لیکن وہ بدستور صدر ہے انکے خلاف جو بولے وہ جیریکو کے قید خانے میں بقیہ زندگی گزارتا ہے ہمیں حیرانی کے ساتھ خوشی ہوئی کہ پاکستان کی سیاست وہاں بھی ہے فرق اتنا کہ وہاں مضبوط آرمی نہیں جس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ کنوینشن میں ایک اسٹال مسلم نیٹ ورک ٹی وی کا بھی تھا لیکن ہم اس اسٹال پر بیٹھے محترم سے متاثر نہ ہوسکے کہ وہ سینما اور فلم کے خلاف تھے جی ہاں ہم نے سینما کی تفصیل دی ان کی معلومات بے حد کم تھیں جب کہ کنوینشن میں دو فلمیں دکھانے کا اہتمام کیا گیا تھا(ٹکٹ لے کر) دی گریٹ امریکن روڈ ٹرپ اور ٹورچران آئوٹ ایک ہال میں قوالی(سال سو سال پرانہ ورثہ) کا اہتمام تھا یہ ایک رنگا رنگ کنوینشن تھا ہم اس کے کرتا دھرتائوں کو مبارکباد دینگے ہر چیز کو کور کرے کے لئے تین نہیں کم ازکم سات دن درکار تھے یہ تنظیم29سال پرانی ہے جب کہICNA(جماعت اسلامی) اس سے پرانی ہے اور سیلاب زدگان کی مدد میں ہر جگہ کام کر رہی ہے اور سیلابی آفت میں گھرے کے علاوہ42ملکوں میں سرکردان ہے۔ISNAنام کے ساتھ لکھا ہے ”ان مع الُسریُسرا” ”بے شک مشکلات کے بعد آسانی پیدا ہوتی ہے” دیکھیں یہ دن پاکستانیوں کو کب دیکھنے کو ملتا ہے انور مقصود کی یہ بات ذہن میں رکھیں” پاکستانیوں عمران خان دوبارہ پیدا نہیں ہوگا اور وہ پاکستانی جو 4ہزار کاٹینٹ10ہزار میں بیچ رہے ہیں وہ کون ہیں انسان؟ لکھتے چلیں پاکستان میچ جیت گیا! بلے بلے زندگی رواں دواں ہے”۔
٭٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here