پاکستان آج محض ایک سیاسی بحران نہیں بلکہ ایک مکمل ریاستی زوال کے دہانے پر کھڑا ہے۔ سیاسی انتشار اس حد تک بڑھ چکا ہے کہ ریاست کی رِٹ، اداروں کی ساکھ اور عوام کا اعتماد سب ایک ساتھ بکھرتا دکھائی دے رہا ہے۔ یہ محض اتفاق نہیں بلکہ برسوں کی غلط پالیسیوں، طاقت کی ہوس اور جمہوریت کے نام پر کی جانے والی منافقت کا نتیجہ ہے۔ ملک میں آج جو کچھ ہو رہا ہے، وہ کسی جمہوری ریاست کے شایانِ شان نہیں بلکہ ایک کمزور اور غیر یقینی نظام کی واضح علامت ہے۔سیاست دانوں کو سزائیں دینے کی روایت اس ملک میں نئی نہیں، مگر مسئلہ سزا نہیں بلکہ انتخابی احتساب ہے یہاں قانون اندھا نہیں بلکہ بااثر کے سامنے جھکا ہوا نظر آتا ہے۔ کچھ سیاست دان معمولی الزامات پر نااہل قرار دے دیے جاتے ہیں، جبکہ سنگین الزامات رکھنے والے طاقتور طبقات قانون کی گرفت سے ہمیشہ باہر رہتے ہیں۔ اس نام نہاد احتساب نے انصاف کو مذاق اور عدلیہ کو متنازع بنا دیا ہے۔ جب عوام یہ دیکھیں کہ قانون صرف کمزور کے لیے ہے تو ریاست سے ان کی وفاداری ختم ہو جاتی ہے۔عدلیہ جو کبھی امید کی آخری کرن سمجھی جاتی تھی، آج خود سوالات کی زد میں ہے۔ ججز کو ہٹانا، دباؤ ڈالنا، مخصوص فیصلے کروانا اور ناپسندیدہ ججز کو دیوار سے لگانا اب کوئی راز نہیں رہا۔ انصاف کے ایوانوں میں خوف کا سایہ اگر موجود ہو تو پھر فیصلے آئین کے مطابق نہیں بلکہ طاقت کے مطابق ہوتے ہیں۔ یہ وہ لمحہ ہوتا ہے جہاں ریاست خاموشی سے اپنی اخلاقی موت مر جاتی ہے۔صحافت، جو کسی بھی معاشرے کا ضمیر ہوتی ہے، پاکستان میں تقریباً بے جان ہو چکی ہے۔ صحافی یا تو بے روزگار ہیں یا خاموش۔ سچ بولنے کی قیمت اغوا، تشدد یا پابندیوں کی صورت میں ادا کرنی پڑتی ہے۔ میڈیا ہاؤسز اشتہارات کے سہارے زندہ ہیں اور بیانیہ ان ہی کے مطابق ترتیب دیا جاتا ہے جو طاقتور ہیں۔ عوام کو سچ دکھانے کے بجائے انہیں ایک مصنوعی حقیقت میں الجھا دیا گیا ہے، جہاں سوال کرنا جرم اور خاموشی وفاداری بن چکی ہے۔اس تمام صورتحال کو مزید خطرناک بناتا ہے وہ روش جس کے تحت اہم ریاستی عہدوں پر میرٹ کے بجائے وفاداری کو ترجیح دی جا رہی ہے۔ نااہل مگر فرمانبردار افراد کو فیصلہ سازی کے مراکز تک پہنچایا جا رہا ہے، جس کے نتیجے میں ریاستی ادارے عملی طور پر مفلوج ہو چکے ہیں۔ جب قابلیت کی جگہ خوشامد لے لے تو ترقی نہیں بلکہ تباہی جنم لیتی ہے۔المیہ یہ ہے کہ اس سب کے باوجود حکمران طبقات خود کو بری الذمہ سمجھتے ہیں۔ کوئی سیاسی جماعت اپنی ناکامی تسلیم کرنے کو تیار نہیں، کوئی ادارہ اپنی حد میں رہنے کو آمادہ نہیں اور کوئی طاقت عوام کے سامنے جوابدہ نہیں۔ اس غیر اعلانیہ طاقت کی جنگ میں پسنے والا عام شہری ہے، جس کے لیے نہ انصاف باقی ہے، نہ روزگار اور نہ ہی مستقبل کی کوئی واضح امید نظر آتی ہے۔سوال یہ نہیں کہ پاکستان کا کیا بنے گا، بلکہ سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان اسی طرح چلتا رہا تو باقی بھی بچے گا؟ تاریخ گواہ ہے کہ ریاستیں بیرونی دشمنوں سے نہیں بلکہ اندرونی ناانصافی، جھوٹ اور طاقت کے غلط استعمال سے ٹوٹتی ہیں اگر ادارے اپنی آئینی حدود میں واپس نہ آئے، اگر احتساب سب کے لیے یکساں نہ ہوا، اگر صحافت کو آزاد نہ کیا گیا اور اگر عوام کو مسلسل بے وقوف بنانے کا سلسلہ جاری رہا تو یہ بحران صرف سیاسی نہیں رہے گا بلکہ وجودی بن جائے گا۔اب بھی وقت ہے، مگر شاید بہت کم۔ فیصلہ یہ کرنا ہوگا کہ پاکستان کو ایک طاقتور چند افراد کی جاگیر بنانا ہے یا ایک آئینی، جمہوری اور عوامی ریاست۔ اگر یہ فیصلہ نہ کیا گیا تو تاریخ ہم سب اور اس بند گلی تک پہنچانے والوں کو معاف نہیں کرے گی۔
٭٭٭














