پی آئی اے پی گئی!!!

0
12

پی آئی اے پی گئی!!!

پاکستانی حکومت نے اپنی نااہلی کا ثبوت دیتے ہوئے ملک کے منافع بخش قومی اداروں کو آہستہ آہستہ پرائیوٹائزیشن کرنے کا گھنائونا اقدام شروع کر دیا ہے جس کے پیچھے آئی ایم ایف کی آشیر باد شامل ہے، حکومت آئی ایم ایف سے قرضوں کی اگلی اقساط وصول کرنے کے لیے ان کی شرائط پر عمل پیرا ہے جس کے سلسلے میں پی آئی اے کو پرائیوٹائز کیا گیا ہے ، یعنی حکومت اس گھناونے عمل سے اس قومی ادارے کو پی گئی ہے جس نے دنیا کے کئی ممالک کی ائیر لائن کو اپنے پائوں پر کھڑا کیا، آج وہی ادارہ پاکستانی حکمرانوں کے ہاتھوں رسوائی کی منازل طے کر کے نجی ہاتھوں میں چلا گیا ہے ۔پاکستان کی قومی فضائی کمپنی پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائنز (پی آئی اے) کی خریداری کے لیے عارف حبیب کنسورشیئم نے اوپن بڈنگ کے دوران 135 ارب روپے کی بولی لگائی جو کہ کامیاب ہوئی ہے۔پی آئی اے کی نجکاری کے عمل کے دوران عارف حبیب اور لکی گروپس کے درمیان اوپن بڈنگ کا مرحلہ ہوا جس دوران عارف حبیب گروپ سمیت چار کمپنیوں کے کنسورشیئم کی جانب سے سب سے زیادہ 135 ارب روپے کی بولی لگائی گئی۔عارف حبیب کنسورشیئم میں عارف حبیب لمیٹڈ، فاطمہ فرٹیلائزر، سٹی سکول اور لیک سٹی ہولڈنگز شامل ہیں۔اس سے قبل تین گروپس نے بولیاں جمع کرائی تھیں۔ براہ راست نشر کی گئی تقریب میں جو پہلی بولی کھولی گئی وہ لکی گروپ کی جانب سے دی گئی تھی۔ اس گروپ نے پی آئی اے خریدنے کے لیے 101.5 ارب روپے کی بولی دی تھی۔اس کے علاوہ ایئر بلیو نے 26.5 ارب روپے کی بولی جمع کرائی ہے۔ جبکہ تیسری اور آخری بولی عارف حبیب گروپ اور ان کی ساتھی کمپنیوں کی تھی جو سب سے زیادہ 115 ارب روپے کی رہی تھی۔حکومت پاکستان کی جانب سے پی آئی اے کی فروخت کے لیے کم سے کم قیمت 100 ارب روپے مقرر کی گئی تھی۔دوسرے مرحلے میں عارف حبیب گروپ اور لکی گروپ کے درمیان اوپن بڈنگ ہوئی۔ اس مرحلے میں بولی کا آغاز 115 ارب روپے سے ہوا اور کم سے کم 25 کروڑ روپے کا اضافہ کیا جا رہا تھا۔ اس دوران بھی سب سے زیادہ بولی عارف حبیب کنسورشئیم نے 135 ارب روپے کی لگائی جو حتمی ثابت ہوئی۔ پاکستان کی موجودہ حکومت کی جانب سے پی ا?ئی اے کی نجکاری کی یہ دوسری کوشش تھی۔گزشتہ برس اس سلسلے میں پہلی کوشش اس وقت ناکام ہوئی تھی جب قومی ایئرلائن کی خریداری کے لیے صرف ایک کمپنی کی جانب سے صرف دس ارب روپے کی بولی لگائی گئی تھی جبکہ حکومت نے اس کی کم از کم قیمت 85 ارب روپے مقرر کی تھی۔پی آئی اے ایک پبلک لمیٹڈ کمپنی ہے جس کے سرمائے کا تقریباً 96 فیصد حصہ حکومت کے پاس ہے۔ اس کا شمار حکومتی سرپرستی میں چلنے والے ان اداروں میں ہوتا ہے جو قومی خزانے کو سالانہ اربوں روپے کا نقصان پہنچاتے رہے ہیں۔گذشتہ دو دہائیوں میں پی آئی اے کے مالی حالات سے متعلق جب بھی کوئی خبر آئی تو اس میں ہر سال اس کے بڑھتے مالی خسارے کا ذکر ملا تاہم رواں برس اپریل میں حکومت کی جانب سے یہ دعویٰ کیا گیا کہ اس ادارے نے 21 سال کے طویل عرصے کے بعد پہلی بار منافع کمایا ہے۔ایک سال قبل جب حکومت مطلوبہ قیمت حاصل نہیں کر پائی تھی تو ایک سال میں پی آئی اے میں ایسا کیا بدلا ہے کہ کوئی اسے خریدنے میں دلچسپی لے۔اس کا جواب ادارے کی مارکیٹ ویلیو میں ہے۔ گذشتہ برس پی آئی اے کی ‘ایکویٹی منفی 45 ارب تھی جو اب واجبات کی ادائیگی یا منتقلی کے بعد 30 ارب روپے ہے یہی نہیں بلکہ حکومت کامیاب بولی دہندہ کو جہازوں کی لیز پر عائد 18 فیصد جنرل سیلز ٹیکس کی چھوٹ دے گی اور پی آئی اے کے ذمے واجب الادا ٹیکسوں کا کچھ حصہ بھی ہولڈنگ کمپنی کو منتقل کر دیا گیا ہے۔پی آئی اے کی نجکاری کے سلسلے میں ماضی میں جو کوششیں ہوئیں اس میں پی آئی اے کے ملازمین اور اس کے اثاثوں کا معاملہ زیر بحث رہا۔پی آئی اے کے پاس اس وقت 38 جہاز ہیں جن میں سے صرف 18 آپریشنل ہیں جبکہ اس کے پاس دنیا بھر میں 78 مقامات کے ہوائی اڈوں پر لینڈنگ کے حقوق ہیں۔ان میں لندن اور یورپی ممالک کے شہر بھی شامل ہیں۔ اس کے علاوہ پی آئی اے کینیڈا بھی جاتی ہے تاہم امریکہ میں اس پر پابندی تاحال قائم ہے،2024 کی رپورٹ کے مطابق پی آئی اے نے 9.3 ارب روپے آپریشنل منافع جبکہ 26.2 ارب روپے خالص منافع کمایا لیکن صد افسوس کہ سرکاری ادارے کی ہر گزرتے سال بہتر ہوتی کارکردگی سے حکمرانوں کے کانوں پر جوں تک نہ رینگی اور منافع بخش ادارہ حکومت کے ہاتھوں سے نکل کر نجی ہاتھوں میں چلا گیا ، حکومت اپنی نااہلی کے باعث پی آئی اے جیسے ترقی کرنے والے ادارے کو دونوں ہاتھوں سے پی گئی ہے ، مستقبل قریب میں پی آئی اے کی فروخت ایک بہت بڑے سکینڈل کے طور پر سامنے آئے گی جس میں بڑے بڑے نام بے نقاب ہوں گے۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here