موجودہ سیاسی صورتحال کے دوران حکمرانوں نے جس طرح ہر سرکاری ادارے کو اپنے دبائو میں لے رکھا ہے اس کی مثال آج سے قبل پہلے کبھی دیکھنے میں نہیں آئی ، حکومت نے اسی دبائو کو عدلیہ سے الیکشن کے حوالے سے من پسند فیصلہ لینے کے لیے بھی استعمال کیا اور اس کے لیے سب سے پہلا وار سپریم کورٹ کے ججز پر کیا گیا اور ان میں تقسیم پیدا کر کے چیف جسٹس کو دبائو میں لانے کی کوشش کی گئی ۔لیکن سلام ہے چیف جسٹس عمر عطا بندیال کو انھوں نے اپنے قریبی ججز کی جانب سے بغاوت کے باوجود اپنے فیصلے میں کوئی لغزش نہیں آنے دی ، چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ججز کی تقسیم ، اپنے اوپر الزامات کو یکسر نظر انداز کرتے ہوئے آئین و قانون کے مطابق پنجاب میں الیکشن کرانے کے لیے 14مئی کی تاریخ کا اعلان کر دیا۔چیف جسٹس کی جانب سے حکومت کے تمام حربے ناکام بنانے کے بعد حکمران آپے سے باہر ہوگئے، وزیراعظم شہباز شریف نے سپریم کورٹ کے فیصلے پر تحفظات کااظہار کرتے ہوئے اس کو عدل اور قانون کا قتل قرار دے دیا۔سپریم کورٹ کے ججز کو تقسیم کرنے اور آپس میں لڑانے کا وار اس قدر قبیح اور مکارانہ تھا کہ چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی کیس کی سماعت کے دوران وکلا سے مکالمے پر آنکھیں نم ہوگئیں اور کہا کہ ساتھیوں کے الزامات ہمارا آپس کا معاملہ ہے لیکن یہ ہے کہ زخموں کے نشان باقی ضرور رہ جائیں گے ۔حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کے دبائو میں آکر فیصلے کرنے کی عدالتی تاریخ بھری پڑی ہے ، حکومت نے زبردستی عدلیہ سے اپنی مرضی کے فیصلے لیے ہیں، پاکستان کی تاریخ ایسی مثالوں سے بھری پڑی ہے جب عدلیہ کو یرغمال بنا کر ججوں کو من پسند فیصلوں پر مجبور کیا گیا ۔پرویز مشرف کے دور حکومت میں بھی ایسی فضا بنانے کی کوشش کی گئی تھی لیکن اس وقت کے چیف جسٹس افتخار محمدچودھری نے بھی جرات مندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے مشرف کے حق میں فیصلہ دینے سے انکار کر دیا تھا اور اس سلسلے میں آئین و قانون کی بالادستی کو یقینی بنانے کی ٹھان لی تھی اور اس میں کامیاب بھی رہے ۔سابق چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کے بعد موجودہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس عمر عطا بندیال وہ واحد شخصیت ہیں جنھوں نے آئین وقانون کے لیے سٹینڈ لیا ہے ، اس سلسلے میں دھمکیوں ، دبائو کو یکسر نظر انداز کرتے ہوئے پنجاب میں الیکشن 14مئی کو کرانے کا حکم دے دیا ہے ۔چیف جسٹس کے فیصلے کو رد کرتے ہوئے وفاقی کابینہ نے سپریم کورٹ کے الیکشن سے متعلق فیصلے کو مسترد کر دیا، وزیر اعظم شہباز شریف کی زیر صدارت وفاقی کابینہ کے اجلاس میں الیکشن سے متعلق سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ کے فیصلے کو پارلیمنٹ کی قرارداد سے متصادم قرار دیتے ہوئے اسے مسترد کر دیا گیا۔ اجلاس میں فیصلہ ہوا ہے کہ وفاقی حکومت سپریم کورٹ کے فیصلے پر ایوان میں آواز بلند کرے گی، اتحادی جماعتیں ایوان میں سپریم کورٹ کے فیصلے پر بات کریں گی، سپریم کورٹ کے فیصلہ پر ایوان میں حکومت اپنا مؤقف پیش کریگی۔
اس صورتحال کے دوران پہلے سے سیاسی اور عدالتی بحران کا شکار ملک میںمزید انتشار کو ہوا ملے گی ، پاکستان میںاس وقت پہلے ہی ایمرجنسی اور مارشل لا نافذ ہونے کی باز گشت ہے ، حکومت کو چاہئے کہ وہ سپریم کورٹ کے فیصلے کا احترام کرتے ہوئے 14 مئی کو پنجاب میں الیکشن کے انعقاد کو ممکن بنائے، اگر حکومت سپریم کورٹ کے فیصلے کو تسلیم نہیں کرے گی تو کل اپوزیشن جماعتیں کیسے عدلیہ کے فیصلوں کو تسلیم کریں گی پھر ہر سیاسی جماعت سپریم کورٹ کو اپنی مرضی کے فیصلے کرنے پر مجبور کرے گی اور ملک بحرانی صورتحال سے نکلنے کی بجائے مزید اس میں دھنستا چلا جائے گا۔ تحریک انصاف اور اس کے حامی عناصر بلاشبہ اس فیصلہ کو اپنی کامیابی کی بجائے آئین کی کامیابی اور نظریہ ضرورت کی ناکامی قرار دے رہے ہیں۔ اس رائے کے مطابق عدالت نے تمام تر دبائو کے باوجود آئینی شرط کے مطابق اسمبلی ٹوٹنے کے 90 دن کے اندر انتخابات کروانے کے اصول کو نافذ کر کے درحقیقت آئین سے اجتناب کرنے کا ہر راستہ بند کر دیا ہے، سیاسی جوش میں قانون و آئین کو یک طرفہ طور سے سمجھتے ہوئے ضرور یہ رائے دی جا سکتی ہے اور تحریک انصاف کو اس کامیابی پر خوش بھی ہونا چاہئے لیکن یہاں یہ وضاحت کرنا ضروری ہے کہ عمران خان اور تحریک انصاف کو انتخابات کے انعقاد کی جد و جہد میں یہ پہلی بڑی کامیابی ملی ہے۔ اسے سیاسی کامیابی تو کہا جاسکتا لیکن اسے آئین کی بالادستی کا نام دینا بہت مشکل ہے۔
٭٭٭