”ساری زندگی کمایا ہے اگر اس ایک ماہ میں نہیں کمائو گے تو اس کے بدلے نیکی ملے گی” اے آر وائی ٹی وی کے اینکر سے یہ بات جوڑیا بازار میں ایک ہول سیلر نے کی جب اس سے پوچھا گیا ”تم اتنی سستی اشیاء کیسے بیچ رہے ہو۔ اس کے چہرے پر اطمینان تھا۔ کاش یہ پروگرام ملک کے سیاستدان دیکھ لیتے تو شاید کہتے 75برسوں سے اس ملک کو لوٹ رہے ہیں اب اگر نہ لوٹیں تو کیا کمی آجائیگی مگر یہ بات سمجھنے کے لئے آپ کو پھر سے پیدا ہونا پڑے گا کہ ان کی پرورش کیسے ہوئی ہے اب ان کے لئے لکھنے کو ہمارا دل نہیں چاہتا کہ یہ سب فضول ہے۔ ان کا کچھ نہیں ہوسکتا یہ ایک ایسے راستے پر ہیں جس کی منزل کوئی نہیں جس کا حاصل کوئی نہیں ملک پر قبضہ کرنے والے جانتے ہیں کہ ملک تباہ ہوچکا ہے۔ لیکن وہ ایک ہی بساط پر شطرنج کا کھیل کھیل رہے ہیں۔ اور عمران خان کے دشمن بنے ہوئے ہیں جس نے ان سب کو ننگا کردیا ہے عوام کو اس قدر مردہ کر دیا ہے کہ وہ آٹے کے ٹرک کے پیچھے بھاگ کر بوری کے حصول میں اپنی جانیں تو دے سکتے ہیں لیکن سب مل کر ان ظالموں پر چڑھائی نہیں کرسکتے۔ اور نہ کوئی احتجاج کرنے کی طاقت رکھتے ہیں یہ ہی حال ہمارے جنرلوں کا ہے جو وسائل کو لوٹ کر ملک کو کنگال بنا چکے ہیں اور خاموش بیٹھے تماشہ دیکھ رہے ہیں۔ پاکستان کا مقابلہ کس ملک سے کرائیں اور اس کا کیا فائدہ ہوگا۔ اور ان حکمرانوں پر کیا اثر ہوگا۔ یہ وہ ملک ہے جو انڈیا کے ساتھ آزاد ہوا تھا۔ انڈیا میں تو جاگیرداری ختم کر دی گئی۔ بڑے بڑے لوگوں سے زمین لے کر انہیں بانڈ دے دیئے گئے خود نہرو نے بھی یہ ہی کیا۔ کسانوں نے اپنی زمین پر محنت اور لگن سے کام کیا اور نتیجہ سامنے ہے وقت کے ساتھ کانگریس پارٹی تبدیلیاں لاتی رہی۔ ستر کی دہائی میں باہر کی اشیاء پر مکمل پابندی لگی۔ کوکا کولا کی جگہ چمپا کولا آگیا باہر کی کاروں کی جگہ ایمبسیڈر چلنے لگی۔ مرسیڈیز کی جگہ ٹاٹا نے لی۔ ٹرانسپورٹیشن پر دھیان دیا گیا۔ بدعنوانی نمک کے برابر تھی۔ چھوٹے موٹے آفس کے کلرک جیسے چھوٹی موٹی رشوت لیتے تھے۔ مثال اس طرح دے سکتے ہیں کہ پاکستان ایکزٹ کے لئے دفتر پہنچے ایک دن علیگڑہ میں قیام کرنے سے لیٹ تھے جس کی ہمیں اجازت نہیں تھی۔ افسر نے غصہ سے کہا کل کہاں تھے تیرا مطلب آگرہ سے دلی آنے میں دو دن لگے آپ کو ”میرا کزن ساتھ تھا افسر پاسپورٹ لے کر اندر چلا گیا یہ کہتے ہوئے کہ باہر خیمہ میں بیٹھو ”کیا مطلب” ہم نے اپنے کزن سے پوچھا۔ جواب تھا جب یہ پاسپورٹ دے تو اسے دو روپے دے دینا” صرف دو روپے؟ ہم نے پوچھا لیکن ہمارے یہاں تو بیس روپے کم میں کوئی بات نہیں ہوتی یہ بات1977کی ہے۔
اور پھر نریندر مودی آگیا اندرا گاندھی نے سکھوں کو کچلنے کے لئے گولڈن ٹیمپل پر فوجی کارروائی کی اور کامیاب رہی لیکن خود اندرا گاندھی کو جان سے ہاتھ دھونا پڑے اسکے سیکھ باڈی گارڈ نے جرنیل سوارسنگھ کا بدلہ لے لیا تھا اسے پھانسی ہوگئی۔ کئی حکومتوں کے بعد2014میں نریندر مودی انڈیا کا چودھواں وزیراعظم بنا۔ جمہوریت کا سفر جاری رہا۔ فوج کو مداخلت کرنے کی ہمت نہ تھی اور نہ ہی وہ سیاست میں دلچسپی لیتے تھے۔ مودی نے انڈیا کو ہر سمت میں آگے بڑھایا وہ وہ کام کئے کہ عقل حیران رہ گئی۔
مودی نے ٹرانسپورٹیشن کو سب سے زیادہ اہمیت دی۔ چھوٹے گیج کی لائن کو بڑے گیج میں تبدیل کردیا گیا۔ انگریزوں کے بنے بنیادی ڈھانچے کو ترقی دی۔ اور وقت کے تقاضوں کے ساتھ بڑے شہروں میں میٹرو کا پلان بنایا گیا آج15بڑے شہروں میں میٹرو چل رہی ہے۔ دہلی میں بڑا حال ہے اور جنوری23میں بمبئی میٹرو کا آغاز ہوچکا ہے جب کہ قرب وجوار سے لوکل ٹرینیں پر صبح بھر بھر کر بمبئی لاتی ہیں۔ اس کے ساتھ دفاعی پروگرام کے تحت جموں اور سری نگر تک ریلوے لائن بچھا کر صدی پرانا خواب جو برٹش کا تھا پورا کردیا۔ آج انڈیا میں سیم سنگ اور آئی فون بن رہا ہے اور اس سے زیادہ دنیا بھر میں انکی فارمسی ٹیکل فیکٹریوں کی برانڈ اور جنرک دوائیں بک رہی ہیں یہ سب کچھ2011میں شروع ہوا تھا اور نریندر مودی کی وزارت میں بڑے بڑے پروجیکٹ پر کام جاری ہے۔ تعمیراتی مد میں بھی انڈیا چھوٹے ملکوں میں عمارتیں تعمیر کر رہا ہے۔ ایسا ہی ایک پروجیکٹ ہم حال ہی میں کیوبا میں دیکھ کر آرہے ہیں۔ آج آپ نیٹ فلیکس کھولیں تو50فیصدی فلمیں شو اور کامیڈی پروگرام انڈیا کے ہیں۔
امریکہ میں ہر بڑے کالج اور یونیورسٹیز میں ہندوستانی نژاد پروفیسرز اور ڈین ہیں۔ یہاں کے سب سے مشہور انسٹیٹیوٹMITمیں سائنس فیکلٹی کا ڈین سائوتھ انڈیا کا ہے۔ اور انجینئرنگ فیکلٹی کی ڈین پاکستانی نژاد پارسی خاتون ہے۔ ہر ہسپتال میں ایک یا دو ڈاکٹر سرجن آپ کو انڈین ملے گا۔ انڈیا ہر چند پاکستان سے5گنا بڑی آبادی کا ملک ہے۔ وہاں بھی کرپشن ہے سیاست دانوں میں مگر آٹے میں نمک کے برابر، انکی سپریم کورٹ اپنی سیسہ پلائی دیوار ہے جس پر کوئی انگلی نہیں اٹھا سکتا اور نہ ہی انہیں خرید سکتا ہے۔ ایسا ہی بنگلہ دیش میں ہو رہا ہے جہاں حال ہی میں سب سے بڑے ٹیکسٹائل سٹی کا افتتاح ہوا ہے۔ اور پچھلی دسمبر22کو ڈھاکہ میں پہلی میٹرو لائن کا افتتاح ہوا ہے۔ یہ ملک جو1971میں آزاد ہوا تھا۔ دنیا میں اپنا نام بنا چکا ہے۔ اسکے مقابلے میں پاکستان شروع دن سے غلط راستے پر گامزن رہا ہے اس کی سب سے بڑی وجہ ہماری فوج ہے جس کے جنرلز نے ملک کو ذاتی جائیداد سمجھ کر استعمال کیا ہے من مانی کی ہے سیاست دانوں سے مقابلہ کیا ہے ملک کو لوٹنے میں۔ ریلوے سے لے کرآج ہمارا ہر ادارہ بدعنوانی کا شکار ہے اس سے بڑی بات کیا ہوسکتی ہے۔ کہ ان جنرلوں نے حکومت کو بدعنوان اور سزا یافتہ بھگوڑے سیاست دانوں کے ہاتھ میں دے دیا اور جو کچھ ہو رہا ہے وہ جنرلز کے ایما پر ہو رہا ہے۔ دونوں ہی چور ہیں۔ آج سراج الحق صاحب نے اچھی اچھی باتیں کیں انہوں نے دونوں طرف کے سیاستدانوں کے لئے پلیٹ فارم مہیا کیا۔ بات صرف اتنی ہے کہ الیکشن کروائو یہ عدلیہ کا فیصلہ ہے اور قانون بھی یہ ہی کہتا ہے لیکن ایسا ہونے نہیں جارہا اور شاید اکتوبر بھی گزر جائے یہ ملک اسی طرح چلتا رہے لوگ آٹے، شکر، دال، بجلی، پانی کے لئے سکتے رہینگے۔ اور حکومت جنرلز کے ساتھ مل کر چین کی بانسری بجاتی رہے گی۔ ایک پشتون قبلہ کا پیپلزپارٹی کا قادر مندوخیل کہہ رہا تھا۔ زلمے خلیل زاد نے لاکھوں افغانیوں کو مروایا عمران خان رجیم چینج کی بکواس کرتا ہے جب کہ دنیا جانتی ہے امریکہ کیا کچھ نہیں کرتا اسکے نزدیک عمران خان نے ڈھونگ رچایا ہے۔ اور زرداری کے گن گا رہا تھا۔ یہ سب دیکھ کر ہمیں کڑھن ہوتی ہے کہ ہم ترقی کیوں نہ کرسکے۔ کیا امریکہ نے روکا تھا یا انڈیا رکاوٹ تھا۔ ہمارے ملک میں اگر ترقی ہوئی ہے تو جگہ جگہ30شہروں میں بحریہ ٹائون نے دستر خوان بچھا دیئے ہیں شاباشی ان جنرلز کو جو قوم کو فقیری کی طرف لے جارہے ہیں۔ عوام کی ملازمتوں پر قبضہ کرکے آئین کی گولڈن جوبلی ہونے والی ہے سوال یہ ہے کس آئین کی؟۔
٭٭٭٭