فیضان محدث اعظم پاکستان !!!

0
78

محترم قارئین! جی ایم سی فائونڈیشن کی طرف سے لکھ جانے والا یہ ہفتہ وار آرٹیکل اہل سنت وجماعت فکر رضا وفکر محدث اعظم رضی اللہ عنھما کا آئینہ دار ہے۔ قرآن پاک پارہ نمبر14سورہ نحل میں ہے۔ترجمہ: ”جو شخص نیک عمل کرے مرد ہو عورت اور ہو وہ مئومن تو ہم اسے پاکیزہ زندگی عطا کریں گے؟ قرآن پاک کی اس آیت کریم سے یہ بات واضح ہو رہی ہے یہ زندگی کوئی اور ہے جس کا تذکرہ ہو رہا ہے کیونکہ یہ زندگی مشروط ہے ایمان وعمل سے جبکہ عام زندگی ایمان وعمل سے مشروط نہیں ہے۔ اس زندگی میں نہ ایمان شرط ہے نہ عمل بلکہ کافر بھی زندہ ہے اور مومن بھی، بدکار بھی زندہ، پرہیز گار بھی زندہ ورنہ کافر اور بدکردا کو تو زندگی نہیں ملنی چاہئے اسی لئے علماء کرام نے فرمایاکہ ایک حقیقی زندگی ہے ایک عادی زندگی ایک حقیقی موت ہے اور ایک عادی موت گویا کہ دو زندگیاں اور دو موتیں عادی زندگی غیر مشروط ہے مگر حقیقی زندگی مشروط ہے۔ حقیقی موت کو قرآن کریم نے یوں بیان فرمایا ہے ترجمہ: ”آپ مردوں کو نہیں سنا سکتے” اللہ تعالیٰ نے فرمایا: تم مردوں کو نہیں سنا سکتے یہاں موتٰی سے مراد تمام مفسرین کرام نے فرمایا کہ ”کفار؟ ہے۔ یعنی اے محبوب! آپ کافروں کو نہیں سنا سکتے اللہ تعالیٰ نے چلتے پھرتے کافروں کو مردہ فرمایا اگر ان کی اس عادی زندگی کا اعتبار ہوتا تو اللہ ان کو مردو منحوس، مبغوض فرما دیتا مگر مردہ تو نہ فرماتا معلوم ہوا کہ وہ کوئی اور موت ہے جو باوجود زندگی کے موت ہے اور وہ حقیقی موت بے کار چلتا پھرتا مردہ اور کھاتا پیتا مردہ ہے۔ گویا کافر حیات عادی سے زندہ اور موت حقیقی سے مردہ ہے اور یہ دونوں جمع ہوسکتی ہیں موت حقیقی اور حیات حقیقی جمع نہیں ہوسکتیں۔ مگر موت حقیقی اور حیات عادی جمع ہوسکتی ہیں حیات حقیقی کو قرآن نے یوں بیان فرمایا ترجمہ: اور نہ کہوان کو جو اللہ کے راستے میں قتل کئے گئے مردہ بلکہ وہ زندہ ہیں لیکن تمہیں شعور نہیں۔ اللہ تعالیٰ خود فرما رہا ہے جو قتل کئے گئے ان کو مردہ نہ کہو۔ جبکہ روح پرواز کر گئی دفن کر دیا گیا جائیداد تقسیم ہوگئی بیوی نے آگے نکاح کرلیا، جسم ہمارے سامنے دم توڑ گیا اعضاء ساکن ہوگئے ہم نے عرض کیا اے اللہ! اس میں تو کوئی علامت زندگی کی نظر نہیں آتی خدا نے فرمایا تمہیں کچھ زندگی نظر آئے یا نہ آئے لیکن یہ زندہ ہیں تم بے شعور ہو معلوم ہوا اگر روح کے نکل جانے کا نام موت ہے تو وہ ہوگیا۔مگر روح نہ ہونے کے باوجود زندہ تو معلوم ہوا یہ کوئی اور زندگی ہے ،موت عادی کے بعد بھی موجود ہے معلوم ہوا کہ کافر چونکہ حقیقی موت سے مردہ ہے وہ حیات عادی سے زندہ بھی رہے تو مردہ ہے اور مئومن شہید حقیقی زندگی سے زندہ ہے حیات عادی جاتی رہے اور موت آبھی جائے تو زندہ ہے معلوم ہوا کہ موت نام ہے کفر کا اور حیات نام ہے ایمان کا جب حضورۖ کی ذات پاک نے اس دارفانی کو چھوڑا اور صحابہ کرام علیھم الرضوان آپ پر درود پڑھتے جاتے تھے اور گزرتے جاتے تھے مگر جو صحابی ذرا جھک کر گزرتا تھا وہ حضور کے لبوں سے ذکر کی آواز سنتا تھا کیونکہ آپ حیات حقیقی سے متعصف تھے۔ مشکواة شریف میں حدیث مبارکہ ہے ”اللہ کا نبی زندہ ہے اسے اس کے ہاں سے رزق دیا جاتا ہے” اس کے حاشیہ کے تحت مذکور ہے کہ اللہ کے ولی مرتے نہیں بلکہ وہ تو دار فانی سے دار باقی کی طرف چلے جاتے ہیں۔ سید العارفین حضرت اسید مافعی شافعی اپنی کتاب روضة الریاحین کے صہ98پر فرماتے ہیں۔ بے شک اللہ کے دوست زندہ ہیں اگرچہ وہ فوت ہوجائیں سوائے اس کے نہیں کہ وہ ایک دار سے دوسری دار میں چلے جاتے ہیں۔ ڈاکٹر محمد اقبال علیہ الرحمتہ نے فرمایا ہے
کون کہتا ہے کہ مئومن مر گئے قید سے چھوٹے وہ اپنے گھر گئے
جہاں میں اہل ایمان صورت خورشید جیتے ہیں ادھر ڈوبے اُدھر نکلے، اُدھر نکلے ادھر ڈوبے
جہاں میں اہل ایمان صورت خورشید جیتے ہیں۔ ادھر ڈوبے اُدھر نکلے، اُدھر نکلے ادھر ڈوبے یعنی جس طرح آفتاب فنا نہیں ہوتا بلکہ اپنی منزل پر رواں دواں رہتا ہے صرف لوگوں کی نظروں سے غائب ہوتا ہے۔ لوگ سمجھے شاید فنا ہوگیا یہی حال مئومن کا ہے عالم ارواح سے غوطہ مارا ماں کے پیٹ میں آنکلا۔ ماں کے پیٹ سے غوطہ مارا دنیا میں آنکلا۔ دنیا سے غوطہ مارا برزخ میں جانکلا۔ برزخ سے غوطہ مارے گا تو حشر میں جانکلے گا بس آفتاب کی طرح اپنی منزلیں طے کرتا جارہا ہے حضرت علامہ ابو یعقوب سنو سی رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا: میرے ایک شاگرد مکہ مکرمہ سے مجھے ملنے کے لئے آئے اور دست بوسی کرنے کے بعد یوں گویا ہوا۔ اے استاد محترم! میں کل ظہر کے وقت مر جائوں گا اور یہ دینار لے لیں، آدھے سے کفن خرید لینا، آدھے سے بقایا خرچ پورا کرلینا۔ استاد حیران ہوئے کیا آدمی ہے مگر وہ واقعی دوسرے دن ظہر کے وقت نماز ظہر ادا کی، استاد کے ہاتھ چومے اور لیٹ گیا اور فوت ہوگیا استاد نے غسل دیا کفن دیا۔ دفن کرکے جب قبر سے باہر آنے لگے تو سوچا بہت نیک بنت تھا اس کا چہرہ کیسا ہے جونہی کفن چہرے سے ہٹایا تو اس نوجوان نے آنکھیں کھول دیں۔ استاد نے پوچھا: کیا موت کے بعد زندگی ہے میں زندہ ہوں اور ہر محب خدا زندہ ہوتا ہے معلوم ہوا کہ اللہ کے دوست زندہ ہوتے ہیں مگر ہم بے خبر ہیں۔ بے شک اللہ تعالیٰ کے ولیوں کی شان یہی ہے اہل سنت وجماعت کو یہ عظمت حاصل ہے کہ یہ اولیاء کرام کے مرتبہ ومقام کو سمجھتے اور بیان کرتے ہیں اور یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ اولیاء کرام اپنی قبول میں زندہ ہیں اور اپنے ماننے والوں کو پہچانتے ہیں اور نوازتے بھی ہیں اور یہ سب اللہ تعالیٰ کی عطا اور فضل وکرم سے ہے اللہ تعالیٰ ہم سب کو اولیاء کا فیضان عطا فرمائے(آمین)۔
٭٭٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here