آئین کی بالادستی!!!

0
45
شبیر گُل

سپریم کورٹ کا دبنگ فیصلہ ، رمضان المبارک میں عصاب شکن لمحات کا خاتمہ ، اعلیٰ عدلیہ کے فیصلہ نے حکومتی ایوانوں میں زلزلہ برپا کردیا۔ سپریم کورٹ نے ڈائریکشن دے دی اور مانیٹر کرنے کا اظہار کیا ہے۔ گیڈر بھبھکیاں ،دہم کیاں اور دھونس دھاندلی کو عبرتناک شکست۔ مملکت خدادا اس وقت بحران کی کیفیت میں ہے۔ آٹے کے حصول کے لئے عوام جان کی بازی دے رہے ہیں، مفت آٹے کے ڈھونگ نے تقریبا تین درجن لوگوں کی جانیں لے لی ہیں۔ گزشتہ دنوں کراچی میں گیارہ افراد آٹے کی لائینوں میں کچلے گئے ۔ نواز شریف کا ڈالر پانچ سو کا ہونے کی وارننگ ۔ مولانا فضل الرحمن ، بلاول اور شہباز شریف نے کورٹ کا فیصلہ آنے سے پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ فیصلہ نہیں مانیں گے۔ ن لیگ کے پدے اور پدیاں گزشتہ ایک ہفتہ سے سپریم کورٹ کے خلف بھرپور مہم جوئی کر کے ہیں۔ کیا وجہ ہے کہ یہ سیاسی اشرافیہ جو گندی ذہنیت کی پیداوار ہے۔ ملک کو آئینی طریقہ سے چلنے نہیں دیتے۔عدلیہ اور فوجی جرنیل عوام وہ عزت نہیں بنا پاتے۔ جو ایسے بڑے عہدوں کی عزت ہونی چاہئے۔ ریٹائرڈ جج اور ریٹارڈ جرنیل باعزت زندگی نہیں گزار سکتے۔ سبہیآرمی چیف عوام کی نظر میں قومی مجرم ہیں۔ اور جج بھی۔ جسٹس ریٹارڈ بھگوان داس ایک غیر مسلم جج تھے لیکن انہیں عوام عزت کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ تیرہ جماعتوں یعنی چوں چوں کے مربہ کے سردار، معاشی دہشت گرد نوازشریف نے تین ججز کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرینس بجھنے کا عندیہ دیا ہے۔ غالب امکان ہے کہ۔الیکشن کمشنر استعفی دے دینگے۔ موجودہ حکومت چودہ مئی کو الیکشن کراتے نظر نہیں آرہی۔انہوں نے عدلیہ کے حکم نامہ کو ماننے سے انکار کردیا۔رانا ثنااللہ، وزیراعظم اور حکومتی ارکان کا کہنا ہے کہ ہم نے چیف جسٹس اور موجودہ تین جج صاحبان کے خلاف ریفرینس صدر مملکت کو بھیجا ہے جو چودہ دن بعد ازخود ایمپلیمنٹ ہو جائے گا۔ حالات مزید کشیدگی کی طرف جارہے ہیں۔
گزشتہ سال عمران خان کے خلاف سو موٹو انہی ججز نے لیا تھا۔ اسے موجودہ رجیم جائز مانتی ہے۔ یعنی اس وقت وہ حلال تھا ۔ اب چیف جسٹس کا سو موٹو اور انہی تین ججز کا فیصلہ ہے جو حرام ہے۔ ؟ بلاول بھٹو۔ فضل الرحمن اور شہباز شریف کو آئندہ الیکشن میں عبرتناک شکست کا خوف ہے اسی لئے الیکشن سے فرار چاہتے ہیں ۔ پارلیمنٹ میں آئین کی پاسداری کا خلف اٹھائے والے خود ہیآئین کی دھجیاں اڑاتے ہیں۔ ایک ملک دو دستور ایک ملک دو قانون نہیں ہوسکتے۔کرپٹ اشرافیہ نے 1997 کو ججز کو بے توقیر کیا گیا۔ آج حالات اس سے بدتر اور گہم بیر ہیں۔ چھ رکنی بینچ نے وفاقی کابینہ کی طرف سے رجسٹرار سپریم کورٹ کی برطرفی کو مسترد کردیا گیا۔ اور انہیں اپنا کام جاری رکھنے کا حکم دیا۔ قاضی فائز عیسی کے ازخود نوٹس کو چھ رکنی بینچ نے کالعدم قرار دے دیا۔ فاشسٹ حکمرانوں کو انکے فسطائی حربوں نے سپریم کورٹ میں ننگا کردیا۔پی ڈی ایم فیصلہ کو آسانی سے نہیں مانے گی۔سیاسی ٹمپریچر کو کو کم کرنے کے لئے آپس میں مل بیٹھ کر طریق جار طے کرنا چاہئے۔ میرا ماننا ہے کہ آئیندہ کچھ روز میں توہین عدالت پر مقدمات درج ہونگے۔ سپریم کورٹ نے جسٹس فائز عیسی کے فیصلہ پر چھ رکنی بینچ بناکر جسٹس اعجاز الاحسن کی سربراہی میں بینچ بنایا گیا ۔ جس نے انکے فیصلے کا جائزہ لے کر فیصلہ والے دن سپریم کورٹ کے باہر وکلا کا بڑی تراش میں مارچ۔ چیف جسٹس کے ساتھ کھڑا رہنے کا عزم ۔ وکلا کا کہنا ہے عدلیہ صحیع فیصلہ کرنے جاری ہے۔ اقبالی علاقوں میں بھتہ خوری بڑھ چکی ہے گلگت بلتستان میں انڈیا اپنا اثرونفوذ بڑھا رہا ہے۔ معاشی بدحالی نے عوام میں مایوسی پید کردی ہے۔ جن پارٹیوں میں الیکشن نہ ہوں۔کارکن تربیت حاصل نہیں کرواتے۔ اسے سیاسی معاملات کو طول دینے سے معاشی تباہی پیدا ہو کی ہے۔ کاٹن انڈسٹری بند ہو کی بے ۔ بزنس کمیونٹی نے ہاتھ جوڑ کر حکومت سے استدعا ہے کہ فیکٹریاں بند ہو چکی ہیں ۔ بیروزگاری بڑھ چکی ہے۔ تلخیاں انتہا پر ہیں۔ رانا ثنااللہ،بلال چوہدری،ٹاڑڑ ، فواد چوہدری اور ور میڈیا ملکی حالات میں آگ لگا رہے ہیں۔ان حالات میں جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق نے تمام اسٹیک ہولڈرز کو ایک ٹیبل پر لانے کے لئے میزبانی کی آفر کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس سلسلہ تما جماعتوں سے رابطے شروع کردئیے ہیں۔ اس وقت ملک میں افہام و تفہیم پیدا کرنے کی کوشش کی جانی چاہئے۔لوگ آٹے کی قطاروں میں روزانہ مر رہے ہیں۔ چوبیس افراد مفت آٹا کی لائی نوں میں زندگی کی بازی ہار گئے۔ اتنی بڑے سانحہ پر نہ بلاول کو ،نہ فضل الرحمن اور نہ ہی ہباز۔ ریف کو کوئی ملال ہوا نہ تکلیف۔ ملک میں بدترین معاشی بحران، بدترین آئینی بحران، بدترین سیاسی بحران اور بدترین عدالتی بحران ہے۔
جب عمران خان کو رخصت کیا گیا تو یہی جج صاحبان تھے۔ اسوقت فضل الرحمن ،بلاول بھٹو اور شہباز شریف نے کہا کہ عدلیہ نے آئین اور ملک کو بچا لیا ہے۔ اب یہ لیڈر عدلیہ کے فیصلہ سے پہلے ہیان ججز پر بداعتمادی کردی گئی۔ پی ڈی ایم ازخود نوٹس کی بنیاد پر اقتدار میں اب ازخود نوٹس کی مخالفت کیوں۔؟ منافقوں کا ٹولہ،ہم پر مسلط ہے۔ نہ کوئی احتساب ،نہ کوئی حساب۔ اقربا پروری اور ذاتی مفادات۔ یہ سیاستدان روزانہ ٹی وی پر جھوٹ بولتے ہیں۔ منافقوں کا یہ ٹولہ رمضان کے تقدس کا لحاظ بھی نہیں رکھتا ۔ انتہائی بے شرمی سے انصاف، برابری، غربت کے خاتمے، سود کے خاتمے ، آئین کی پاسداری پر لیکچر دیتے ہیں، لیکن انداز سیاست بالکل مختلف اور منافقت سے بھری نظر آتی ہے۔ دنیا میں جھوٹ بولنے والے ممالک میں ہم پہلے نمبر پر ہیں ۔انصاف فراہم کرنے والے ممالک میں ہم 134ویں نمبر پر ہیں۔ کرپشن کرنے والے ممالک کی لسٹ میں ہم دنیا کے پہلے پانچ ممالک میں ٹاپ پر ہیں ۔ ہر الیکشن میں ہوائوں کا رخ دیکھ کر پارٹیاں بدلتے ہیں۔ مجال ہے کہ کبھی گریبان میں جھانک کر اندرونی غلاظت کا جائزہ لیا ہو۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here