محترم قارئین! اسلام، امن وامان کا دین ہے اسلام کی حقانیت اظہر من الشمس ہے۔ اسلام کو ماننا ہی نیک بختی ہے۔ دنیا اور آخرت کی بھلائیاں حاصل کرنے کا بہت بڑا ذریعہ ہے اس کے بغیر کوئی چارہ کار نہیں ہے۔ جنگ وجدل، ظلم وستم اور خون ریزی وبدامنی اس کے منشور میں قطعی طور پر داخل نہیں ہے۔ جہاں کہیں بانی اسلام کو شمشیر برہنہ اٹھانا پڑی۔ تاریخ شاید ہے کہ یہ محض دفاعی ضرورت تھی۔ جارحیت سے قلبی نفرت تھی اگر آپ جارحیت پسند ہوتے تو فتح مکہ سے بڑھ کر اور کون سا موقع تھا، ایسے جذبات کو تسکین کے لئے؟مگر آپ نے عفو عام کا اعلان کیا آج کا مغربی مورخ حقائق وبصائر کے نازک پھولوں کو روندتا ہوا انتہائی بے دردی سے لکھتا ہے کہ ”اسلام بھی دیگر مذاہب کی طرح تلوار کے زور سے پھیلا ہے”۔ یہ بہت سنگین اور قلعی جرم ہے حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ لشکر اسلام بوڑھوں، عورتوں اور بچوں ہی نہیں بلکہ جانوروں اور کھیتوں کا بھی خیال رکھتا ہے لوگ مسلمانوں کے حسن اخلاق سے متاثر ہو کر حلقہ بگوش اسلام ہوتے تھے۔ ان کا طریقہ وہی تھا جیسا کہ ایک ماہر سرجن کا آپریشن کرکے فاسد مادوں کو ن کال دیتا ہے۔ کہ باقی نظام بدن بالکل محفوظ رہے۔ آپۖ بھی عرب معاشرے کو نیکی وفلاح کا گہوارہ بنانا چاہتے تھے جو بعد میں تمام انسانیت کے لئے راہنمائی کا فریضہ انجام دے سکے۔ اس لئے ضروری تھا کہ شرپسند عناصر کی گوشمالی کی جاتی۔ آپ نے اپنی حیات طیبہ میں اکثر جنگوں کی سپہ ساری کا عہدہ خود سنھبالا اور خدا داد بصیرت کی وجہ سے فتح ونصرت حاصل کی جنگ بدر اور احد میں اپنے مستقر سے نکل کر مدمقابل کو کچل کر رکھ دیا۔ جنگ خندق میں کامیاب طریقہ دفاع سے کام لیتے ہوئے باطل کے قدم اکھاڑے جنگ خیبروحنین دشمن کے علاقہ جات میں جاکر فتح فرمائیں۔ ازدختر آپ نے دشمن کے اندرونی حالات سے واقفیت حاصل کرنے کے لئے جاسوسی کا نظام بھی رائج فرمایا تاکہ امت کے لئے سنت وحجت بن جائے یہودیوں کے قبیلہ بنو قریظہ کے لئے حضرت زبیر رضی اللہ عنہ کہ روانہ فرمایا جب آپ کسی دشمن سے لڑائی کرتے تو اسے اطلاع نہ ہونے دیتے۔ اس طرح دشمن جم کر مقابلہ نہ کرسکتا۔ اور خونریری بھی کم ہوتی یہی اسلام اور بانی اسلام ۖ کا خطرہ نظریہ ہے ہر کوئی جھنمی مسافرت چھوڑ کر جنت کا مسافر بن جائے فتح کے بعد تین دن تک میدان میں قیام فرماتے۔ تعاقب بھی فرماتے جیسا کہ جنگ احد کے بعد کفار فکر کا پیچھا کیا تھا یہ حضور اکرم ۖ کی ہی سپہ سالارانہ بصیرت کا نتیجہ تھا کہ اہل حرم نے آغوش صحرا سے نکل کر فلک بوس فصیلوں اور آہنی قلعوں کی بھی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔ حضورۖ چونکہ مسلمانوں پہ کرم کا بادل بن کر سایہ فگن رہے اس لئے انہیں کسی قسم کی سختی اور آزمائش میں ڈالنے سے دوسروں کو بھی منع فرماتے تھے ایک مرتبہ ایک صحابی رضی اللہ عنہ نے نماز پڑھائی اور قرآت طویل فرمائی۔ جس کی وجہ سے لوگ تھوڑے سے پریشان ہوئے۔ یہ بات نبی پاکۖ کی بارگاہ میں پہنچی تو آپ ۖ نے تنبیہ کرتے ہوئے فرمایا کہ تمہارے پیچھے بوڑھے، کمزور اور ضرورت مند لوگ بھی ہوتے ہیں۔ لہذا نماز کو مختصر پڑھا کرو(بخاری شریف کتاب الصلواة) آپ خود بھی امامت فرماتے وقت لوگوں کا خیال رکھتے۔ اگر کسی بچے کی آواز کانوں میں پڑ جاتی تو مزید تخضیف فرما دیتے۔ کیونکہ آپ بچے کے ساتھ ساتھ بچے کی ماں کا خیال بھی کرتے کیونکہ بچے کے رونے کی وجہ سے ماں کا دل پریشان ہونا ایک فطری عمل ہے۔ حضور ۖ سخت دل اور تندخو نہیں تھے۔ ایک رات آپ غیر معمولی دیر کرکے مسجد میں تشریف لائے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم عالم انتظار میں کئی بار سوئے اور کئی بار جاگے۔ بالآخر آپ نے آکر فرمایا”اگر میں اپنی امت پر بوجھ نہ سمجھتا تو میں حکم دیتا کہ نماز عشاء اسی وقت پڑھا کرو۔ حضورۖ انسان کو انسانی روپ میں دیکھنا چاہتے تھے۔ نہ کہ حیوانی جبلتوں کا محرک پتلا۔ آپ نے بنی نوع انسان کو حسن معاشرت کے انقلاب بپا کردینے والے طریقے اور سلیقے بتائے ہیں۔ اور جہالت وگمراہی، تشدد و عریانی، فحاشی وبدقماشی سے پاک معاشرے کی تشکیل وتعمیر فرمائی۔ بچوں پر شفقت، اہل خانہ کے حقوق، ناداروں سے حسن سلوک ایفائے عہد، شرم وحیا، بڑوں کا احترام، والدین کی عظمت اور ان کا احترام، محنت ومشقت پڑھانے کا طریقہ اور عاجزی وسادگی وغیرہ سادگی حضورۖ کا اہم ترین وصف تھا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ آپ کی بارگاہ میں حاضر تو دیکھا کہ آپۖ ایک چٹائی کر بیٹھے ہوئے ہیں۔ عرض کی حضور قیصروکسریٰ تو آسائش کی زندگی بسر کریں جبکہ آپ کی زندگی کا یہ عالم؟ فرمایا ان کے لئے دنیا اور ہمارے لئے آخرت اور راحتیں ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں حقائق کو سمجھ کر عمل کی توفیق عطا فرمائے۔ اور مذہب حق اسلام پر تادم آخر قائم دائم رکھے۔(آمین)
٭٭٭٭
- Article
- مفسر قرآن حضرت مولانا مفتی لیاقت علی خطیب مرکزی سنی رضوی جامع مسجد جرسی سٹی، نیو جرسی یو ایس اے