غزہ (پاکستان نیوز)شامی سرحد پر ایرانی کمانڈر کی ہلاکت اور بدلہ لینے کے اعلان کے بعد اسرائیل اورفلسطین کے درمیان جنگ مشرق وسطیٰ تک پھیلنے کا خدشہ پیدا ہو گیا ہے ،اقوام متحدہ اور روس اس حوالے سے پہلے ہی انتباہ جاری کر چکے ہیں کہ اگر فوری جنگ بندی کے لیے اقدامات نہ کیے گئے تو خطے میں سنگین جنگی بحران پیدا ہو سکتا ہے ، ایرانی ذرائع ابلاغ کے مطابق پیر کو شام میں ایک سینئر ایرانی کمانڈر کو مبینہ اسرائیلی حملے میں ہلاک کر دیا گیا ہے، نیم سرکاری خبر رساں ایجنسی تسنیم کا کہنا ہے کہ سید رضی موسوی پاسداران انقلاب کے ایک ‘تجربہ کار فوجی مشیر’ تھے جنھیں دمشق کے جنوب مشرق میں سیدہ زینب کے علاقے میں ایک فضائی حملے میں ہلاک کیا گیا۔حماس کے سات اکتوبر کے حملے کے بعد سے شام میں اسرائیلی کارروائیوں میں اضافہ ہوا ہے۔دمشق میں ایرانی سفیر حسین اکبری نے کہا ہے کہ موسوی ایرانی سفارتخانے میں کام کرتے تھے، وہ دوپہر دو بجے دفتر سے نکل کر گھر گئے جہاں ان پر اسرائیلی میزائل حملہ ہوا۔ایرانی میڈیا نے سیدہ زینب کے علاقے میں دھواں اٹھتے دکھایا اور بتایا کہ موسوی کو ‘تین میزائلوں’ سے نشانہ بنایا گیا۔ اکبری کے مطابق موسوی کے گھر پر دوپہر تین بجے میزائل حملے کیا گیا اور دھماکے کی شدت اس قدر زیادہ تھی کہ ان کی لاش کے گھر کے باہر سے برآمد ہوئی،ایرانی صدر ابراہیم رئیسی نے اس حملے کو اسرائیل کی ‘پریشانی’ اور ‘کمزوری’ قرار دیا ہے جس کی ‘قیمت ادا کرنی پڑے گی۔محصور غزہ کے وسطی علاقے میں بمباری سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسرائیل اپنی زمینی کارروائی کا تیسرا مرحلہ شروع کرنے والا ہے۔ نیوز ایجنسی اے پی کے مطابق ممکنہ طور پر اس نئے جنگی آپریشن سے مزید تباہی اور بے گھر ہونے والے فلسطینیوں کی ایک نئی لہر وجود میں آنے کا خطرہ ہے۔ اسرائیلی فورسز شمالی غزہ اور جنوبی شہر خان یونس میں پہلے ہی شدید شہری لڑائی میں مصروف ہیں۔ ان علاقوں سے بے گھر ہونے والے فلسطینیوں کے لیے پہلے ہی پناہ کے لیے بہت کم جگہ بچی ہے۔سویلین ہلاکتوں میں کمی کے مطالبات اور جنگ بندی کے لیے بین الاقوامی دباؤ کے باوجود اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو نے کہا کہ ”غزہ کی جنگ ابھی خاتمے کے قریب نہیں۔”اسرائیل کا غزہ پر حملہ حالیہ تاریخ کی سب سے تباہ کن فوجی مہمات میں سے ایک ثابت ہوا ہے۔ غزہ میں وزارت صحت کے مطابق اسرائیلی بمباری کے نتیجے میں تقریبا 21 ہزار فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں اور ان میں سے دو تہائی تعداد خواتین اور بچوں کی تھی۔درجنوں اسرائیلی لڑاکا طیاروں نے منگل کو غزہ میں 100 سے زیادہ اہداف کو نشانہ بنایا۔ حماس کے زیر کنٹرول وزارت صحت کے مطابق ان حملوں میں کم از کم 52 افراد ہلاک ہوئے۔ اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو نے گزشتہ روز فوجیوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ آنے والے دنوں کے دوران حملوں میں مزید اضافہ کر دیا جائے گا۔دوسری جانب امریکی افواج نے عراق میں ایران نواز ملیشیا کو نشانہ بنایا ہے۔ امریکی وزیر دفاع لائڈ آسٹن کے مطابق امریکی افواج نے ایرانی حمایت یافتہ عسکری تنظیم کتائب حزب اللہ سے وابستہ گروپوں کی تین تنصیبات پر ”مناسب” حملے کیے ہیں۔امریکی وزیر دفاع نے کہا کہ یہ کارروائیاں عراق اور شام میں امریکی فوجیوں کے خلاف ان جنگجوؤں کے حملوں کے جواب میں کی گئیں۔ انہوں نے خاص طور پر پیر کے روز شمالی عراق میں کرد خود مختار علاقے اربیل میں فضائی اڈے پر حملے کا حوالہ دیا، جہاں تین امریکی فوجی زخمی ہو گئے تھے۔اسی طرح تقریباً روزانہ ہی لبنانی سرحد پر حزب اللہ اور اسرائیلی فورسز میزائلوں، فضائی حملوں اور گولہ باری کا تبادلہ کر رہے ہیں۔عسکریت پسند تنظیم حماس نے اسرائیل کے ساتھ عارضی جنگ بندی کی تجویز کو مسترد کر دیا ہے، حماس کی جانب سے عارضی کے بجائے مستقل جنگ بندی کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ حماس کا یہ بیان ان خبروں کے بعد سامنے آیا ہے جن کے مطابق مصر نے غزہ کی جنگ مرحلہ وار ختم کرنے کے لیے ایک نئی تجویز پیش کی ہے اور اسرائیلی حکام اس پر بحث کر رہے ہیں۔ اس تجویز میں 14 دن کی جنگ بندی بھی شامل ہے۔ دوسری جانب اسرائیل کی جنگی کابینہ غزہ کی جنگ کی فروری تک کے لیے منصوبہ بندی کر چکی ہے۔اقوام متحدہ نے کہا کہ اسے وسطی غزہ پٹی پر اسرائیل کی مسلسل بمباری پر ”شدید تشویش” ہے، انھوں نے اسرائیلی فورسز پر زور دیا کہ وہ عام شہریوں کے تحفظ کے لیے تمام دستیاب اقدامات کریں۔ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے دفتر کے ترجمان سیف میگنگو نے ایک بیان میں کہا کہ ہمیں اسرائیلی فورسز کی طرف سے وسطی غزہ پر مسلسل بمباری پر شدید تشویش ہے، تمام حملے بین الاقوامی انسانی قانون کے اصولوں کے عین مطابق ہونا چاہئیں، جس میں فرق کرنا، تناسب اور احتیاط سبھی کچھ شامل ہیں۔دریں اثنا ء روس کے صدر ولادی میر پوتین نے خبردار کیا ہے کہ اسرائیل اور حماس کی جنگ مشرق وسطیٰ سے باہر تک پھیل سکتی ہے کیونکہ یہ بات درست نہیں ہے کہ معصوم عورتوں، بچوں اور بوڑھے فلسطینیوں کو دوسرے لوگوں کے جرم کی سزا دی جا رہی ہے، صدر پوتین نے کریملن میں ایک اجلاس سے خطاب کے دوران کہا کہ خطے میں لہو بہانے کا سلسلہ روکا جانا چاہئے تھا۔ میں نے یہ بات دنیا کے دوسرے رہنماوں کے ساتھ فون کالز پر کہی کہ اگر جنگ بندی نہ کی گئی تو خطرہ ہے کہ یہ مشرق وسطیٰ کے باہر زیادہ دور تک پھیل جائے گی۔ آج ہماری یہ ذمہ داری ہے کہ اسے خونریزی اور تشدد کو روکیں وگرنہ بحران مزید بڑھ جائے گا جس کے مضمرات بڑے سنگین ہوں گے۔ خدشہ ہے کہ یہ مضمرات صرف مشرق وسطیٰ تک کے لیے نہیں ہوں گے بلکہ مشرق وسطیٰ کی سرحدوں سے باہر تک چلے جائیں گے۔’روس کے صدر نے اپنے ریمارکس میں مغربی ملکوں پر تنقید کرتے ہوئے کہا ‘بعض مخصوص افواج خطے میں اشتعال اور جنگ کے بڑھاوے کے لیے متحرک نظر آرہی ہیں۔ ان کی وجہ سے کئی دوسرے ملک اور ان کے لوگ بھی جنگ میں ملوث ہو جائیں گے۔