آج کا انسان اپنے آپ کو قبول نہیں کر پا رہا:شہزاد انجم ،ورجنیا، سالٹ لیک یوٹا سے حاضرین کی شرکت
نیویارک (پاکستان نیوز)گذشتہ روز پاکستانی کرسچن امریکن کمیونٹی کے زیر اہتمام ایک ِفکری نشِست کا اہتمام کیا گیا۔اس نشِست کا اہتمام نارتھ ایسٹ ریجنل لائبریری میں فلاڈلفیہ میں کیا گیا تھا۔پروگرام اپنے وقت کے مطابق ٹھیک11:30بجے شروع ہوا۔ اس نشِست میں فلاڈلفیہ، ورجنیا، سالٹ لیک یوٹا سے حاضرین نے شرکت کی۔ِفکری نشِست کا موضوع تھا ”خُود شَناسی اور ذرائع ابلاغ“ کِردار، اثرات روکس عدیل نے شرکاءکو خوش آمدید کہا اور ورجینیا سے خاص طور پر تشریف لائے ہوئے مہمان پاسٹر عِنایت ڈینیل صلیبی صاحب سے دعا کی درخواست کی۔ بعد ازاں شہزاد انجم نے شرکاءکو ِفکری نشِست کے موضوع پر اظہارِ خیال کی دعوت دیتے ہوئے نشِست کا آغاز افتخار عارف اور امِیر خُسرو کے کلام سے کیا۔ ”خود کو ڈھونڈنے نکلا تھا عارف، اِک زمانے سے رُوشناس ہوا۔ (افتخار عارف) من تو شدم تو من شدی، من تن شدم تو جاں شدی۔تاکس نہ گوید بعد ازیں، من دیگرم تو دیگری۔ (امیر خسرو) شہزاد انجم نے اس بات کا اظہار کیا کہ معاشرے میں بنیادی بگاڑ کا سبب یہ بھی ہے کہ آج کا انسان اپنے آپ کو قبول نہیں کر پا رہا۔ وہ ”جو ہے“ اس کو قبول نہیں کرتا اور ”جووہ نہیں ہے“دوسروں کو باور کروانا چاہتا ہے۔ خودشناسی کا پہلا پڑا¶ اپنے آپ کی قبولیت ہے۔ جس دن انسان نے اپنے آپ کو قبول لیا اسی روز دوسرے کو قبول کرنے کا مرحلہ شروع ہو جائے گا اور خود کی قبولیت کا یہ عمل معاشرے میں بگاڑ کے خاتمے کی طرف پہلا قدم بھی ہو گا۔ شرکاءنے باری باری اپنے تاثرات کا اظہار کیا۔ روکس عدیل، پاسٹرعنائت ڈینیل صلیبی، شمس شمعون، زین جان، شارون انجم اور شہزاد انجم نے اس گفتگو میں بھرپور شرکت کی۔ نوجوان شرکاءنے اس نکتے کو خصوصی طور پر موضوعِ گفتگو بنایا کہ سوشل میڈیا نے نوجوان نسل کے سوشل سٹیٹس ایشو کو بڑھاوا دیا ہے۔ ہر نوجوان جدید ترین گاڑیوں اور دیگر قیمتی اشیاءکے ساتھ تصاویر لگا کر سوشل میڈیا پر لگانا چاہتا ہے۔ ہر نوجوان مختلف فلٹرز کے ساتھ اپنے آپ کو کچھ مختلف بنا کر پیش کر رہا ہے جبکہ وہ حقیقیت میں بالکل ایسا نہیں۔ جس دن نوجوان نسل اپنے آپ کو قبول کرلے گی اور سوشل میڈیا کا درست استعمال کرنا شروع کر دے گی، معاشرے سے بہت سارے مسائل خود بخود ختم ہونا شروع ہو جائیں گے۔ بات خود شناسی سے بڑھتی ہوئے اجتماعی شناخت تک پہنچی اور موضوع حسّاس ہوتا گیا۔ شرکاءنے اس بات کا اظہار کیا کہ پاکستانی مسیحی امریکن کمیونٹی کو امریکہ میں اپنی شناخت پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ نوجوانوں نے اس پرخاص دلچسپی کا اظہار کیا۔ اس ضِمن میں شہزاد انجم نے چند حقائق بتا کر شرکاءکو حیران کر دیا کہ امریکی مردم شماری کے مطابق 2018 تک پاکستانی امریکیوں کی تعداد 526,956 ہے۔ پاکستان کی مردم شماری کے مطابق مسیحی، پاکستان کی کل آبادی کا 1.59 ہیں گویا اگر اسی تناسب کو برقرار رکھا جائے تو مسیحیوں کی تعداد امریکہ میں 8220 بنتی ہے۔ مگر شرکاءکا دعوی تھا کہ صرف فلاڈلفیہ میں ہی پاکستانی مسیحی 2000 کے قریب ہیں۔ سو اس بات کی ضرورت کو محسوس کیا گیا کہ امریکہ میں پاکستانی مسیحیوں کی درست تعداد کو جانا جائے۔ انٹرنیٹ پر اگر پاکستانی مسیحی امریکن تلاش کریں تو گوگل پر نتیجہ صفر ہے۔ کسی بھی شعبے میں ایک بھی نام گوگل پر موجود نہیں۔ وجہ یہ نہیں کہ ایسا کوئی شخص موجود نہیں بلکہ اسکی وجہ یہ ہے کہ امریکہ میں مقیم پاکستانی مسیحی کمیونٹی میڈیا کو درست اور موثر طور پر استعمال نہیں کر رہی اور نہ ہی اپنے مندرجات کو درست جگہ درج کروا رہی ہے۔ ایسے ہی حسّاس موضوعات پر بات سے بات نکلتی چلی گئی اور روکس عدیل نے بتایا کہ نشسِت کا وقت ختم ہو چکا ہے۔ انھوں نے حاضرین کا شکریہ ادا کیا۔ شرکاءاس گفتگو میں اس حد تک دلچسپی لے رہے تھے کہ فِکری نشِست کے بعد بھی قریبی کافی شاپ پر سبھی جمع رہے اور اس موضوع پر گفتگو کرتے رہے۔ فیصلہ کیا گیا کہ اس سِلسلے کو جاری رکھا جائے۔ اور ایسے موضوعات پر مزید نشستوں کا انعقاد کیا جائے۔