خوبصورت گمنام شاعر سید صباءواسطی

0
205
شمیم سیّد
شمیم سیّد

شمیم سیّد،بیوروچیف ہیوسٹن

آج کل ہیوسٹن میں الیکشن کی گہما گہمی ہے اور ہر کوئی الیکشن میں ووٹ دینے کی بات کرتا ہے اور اس وجہ سے پاکستانیوں کی بڑی تعداد ووٹ ڈال رہی ہے اس سے پہلے میں نے اپنی کمیونٹی میں اتنا جوش و خروش نہیں دیکھا اس کی وجہ شاید فورٹ بینڈ کاﺅنٹی سے شیرف کے امیدوار مظفر صدیقی ہیں جو کہ ری پبلکن کی طرف سے امیدوار ہیں اور دوسرے ہمارے لیئق الرحمان جو کانگریس کے امیدوار ہیں وہ واحد پاکستانی ہیں جنہوں نے کانگریس مین کیلئے الیکشن میں کھڑے ہوتے ہیں ہماری دعا ہے کہ ہمارے نمائندے جیت جائیں میں اپنے دوست شکیل خان کےساتھ پولنگ بوتھ پر گیا وہاں میری ملاقات ایک شخص سے ہوئی نہایت دھیمے لہجے کے مالک شائستہ گفتگو کر رہے تھے شکیل بھائی نے بتایا کہ یہ میرے کزن ہیں اور یہ شاعر بھی ہیں اور پچھے بیس سالوں سے ہیوسٹن میں مقیم ہیں لیکن ان کو کبھی کسی مشاعرے میں نہیں دیکھا کیونکہ ہیوسٹن کی سرزمین شاعروں کے معاملے میں بہت زرخیز ہے اور یہاں بڑے بڑے شاعر موجود ہیں میں نے ان سے جب وجہ پوچھی مشاعروں میں شرکت نہ کرنے کی تو انہوں نے کہا کہ مجھے شاعری کا شوق بچپن سے تھا پہلی غزل 1981ءمیں روزنامہ جنگ میں شائع ہوئی۔ مرحوم اطہر نفیس نے بے حد حوصلہ افزائی کی اور اس کے بعد بہت ہی غزلیں جنگ اور اخبار جہاں میں شائع ہوتی رہیں طبیعت میں جو خلوت پسندی ہے اس نے وہاں بھی ادبی محفلوں سے دور رکھا میں ان کی باتیں سُن رہا تھا اور سوچ رہا تھا کہ یہ کس قسم کا شاعر ہے جو اخبارات میں تو چھپ رہا ہے لیکن محفلوں میں نہیں جاتا۔ ان کو کہانیاں لکھنے کا بھی شوق رہا ہے اور پہلی کہانی محترمہ زاہدہ حنا نے عالمی ڈائجسٹ میں شائع کی پھر اس کے بعد عمران ڈائجسٹ میں شائع ہوتی رہیں۔ 1999ءمیں امریکہ مستقل سکونت اختیار کر لی لکھنے لکھانے کا شوق تو رہا لیکن گردش روزگار ساری توجہ کا مرکز رہی، شاعری تو ہوتی رہی لیکن چھپنے چھپانے کا سلسلہ رُک گیا۔ جب انہوں نے مجھے اپنی کتاب ”امیدیں کتنی“ لا کر دی اور میں نے گاڑی میں بیٹھ کر وہ شاعری کا خوبصورت دیوان پڑھا تو ایک کے بعد ایک در کُھلتا گیا اور میں سوچ رہا تھا کہ اس قدر عمدہ لکھنے والا گمنامیوں کی زندگی کیوں گزار رہا ہے یہ اگر ہیوسٹن کے مشاعروں میں حصہ لے تو بہت جلد صف اول کے شاعروں میں اس کا شمار ہو جائےگا۔ اور یہ شاعر ہیں سید صباءواسطی جو فکر معاش کے سبب دیار غیر میں جا بسنے کے باوجود وطن کی مٹی سے اپنا رشتہ منقطع نہیں کرتے وطن کی آب و ہوا اور فضاءکے علاوہ قومی زبان اردو سے محبت ایک ایسا طلسم ہے جو ہجرت کرنے والوں کو ہر لحظہ اپنی گرفت میں لیے رہتا ہے۔ ان کے اشعار سادہ زبان کے حامل ہوتے ہوئے بھی قاری پر دیرپا اثر چھوڑتے ہیں جب میں نے ان کی غزل دیکھی اور پڑھی تو میں نے پوچھا کہ یہ تو راحت اندروی کی زمین ہی ہے آپ نے پہلے لکھی ہے یا راھت اندروی نے تو انہوں نے کہا کہ میں راحت اندوروی سے بہت متاثر ہوں اس لیے میں نے کوشش کی ہے اور بہت ہی خوبصورت لکھی ہے میں چند اشعار ان کے لکھ رہا ہوں میرے قاریوں کو ضرور پسند آئینگے۔
صدا جو شاہ لگائے اذان تھوڑی ہے
یقین مجھ پہ ہو لازم، قرآن تھوڑی ہے
سنا رہے ہو کسی اور کی لکھی تحریر
تمہارے منہ میں تمہاری زبان تھوڑی ہے
چہکتے اُڑتے پرندوں سے چمن میں حیات
یہ دیسی خالی زمین و مکان تھوڑی ہے
ان کے دیوان میں جس میں زیادہ تر غزلیں، قطعات اور کچھ نظمیں بھی ہیں۔ غزلیں پڑھنے سے کچھ ایسا لگا جسے وقت یا ہجرت نے ایک شاعر کے سفر میں رکاوٹیں کھڑی کر دی ہیں۔ جس طرح پھول کی خوشبو کو چُھپایا نہیں جا سکتا، اسی طرح فن کو دبایا نہیں جا سکتا اور میں بجا طور پر کہہ سکتا ہوں کہ سید صباءواسطی نے اردو شاعری سے وابستہ امیدوں کو پورا کیا ہے اور وہ آئندہ بھی ا پنے قارئین کو مایوس نہیں کرینگے اور اپنی گمنامی کی زندگی سے نکل کر ہیوسٹن کے باذوق لوگوں میں ایک اپنی پہچان بنا لیں گے اور شہر ادب میں ان کا یہ مجموعہ ضرور پذیرائی حاصل کرےگا۔ میں نے ان سے درخواست کی کہ وہ یہاں کی ادبی محفلوں میں ضرور جائیں اور ہیوسٹن کے لوگوں کو اپنی خوبصورت شاعری سے محظوظ کریں اور میں یقین سے کہتا ہوں کہ ہیوسٹن کے ادبی لوگوں میں سید سباءواسطی جلد ہی اپنا مقام بنا لیں گے۔ جلد ہی ان کی کتاب ”امیدیں کتنی“ کی رونمائی ہوگی۔ ان کے چند خوبصورت اشعار پیش نظر ہیں!
ایک چنگاری سے ہی آگ لگا دیتے ہیں
ساتھ بیتھے ہوئے جب دوست ہوا دیتے ہیں
زخم دینے کو ضروری نہیں برچھی بھالے
لوگ لمحوں سے رویوں کی سزا دیتے ہیں
آتو جاتے ہیں تیری بزم ستائش میں امیر
کاٹ کر ہم بھی مگر اپنی زبان آتے ہیں
نشانہ چُوک بھی جائے، بھروسہ چوٹ کھاتا ہے
کوئی بھی وار سمجھو تو کبھی خالی نہیں جاتا

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here