قارئین وطن! پچھلے دنوں ارشد شریف کا شو دیکھ رہا تھا جس میں اس بہادر اینکر نے شہباز شریف ، حمزہ شریف اور سلمان شریف منی لانڈرنگ کی مکمل تفصیل ایک ایک ملازم کی بنک ڈیپازٹ کے ثبوت کے ساتھ پیش کی اس کے اس بہادر اقدام نے شہبازی مافیا کو جس طرح طشت ازبام کیا قابلِ ستائیش ہے لیکن اِن ثبوتوں کے بعد بھی نہ وزیر اعظم عمران خان ، نہ چیف جسٹس آف پاکستان نہ ایف آئی اے کے سربراہ جس کا ڈومین ہے کہ اِس منی لانڈرنگ کے خلاف ہتھکڑیاں لگاتا نیب چیئرمین بھی خاموش اور سرحدوں کے اور نظریاتی سرحدوں کے محافظ اور سب سے زیادہ کروڑ عوام اندھی ، بہری اور گونگی لگی کہ ارب کی اتنی خطیر رقم جو ان کے ملازمین کے اکاونٹ میں جن کی تنخواہیں / ہزار سے زیادہ نہیں تھی، کہاں سے آئی اتنی بڑی خرد برد کے باوجود شہباز شریف اپوزیشن لیڈر اور بیٹا حمزہ شریف ملک کے سب سے بڑے صوبہ کا اپوزیشن لیڈراور دوسرا بیٹا سلمان شریف ملک سے فرا اتنی بڑی قوم کی دولت پر ڈکیتی پر لگتا ہے کہ صرف ایک شخص ارشد شریف کی آنکھیں کھولی ہوئی ہیں جس نے ایک ایک ٹرانزیکشن کی سلپ پیش کی ہے لیکن ایف آئی اے لگتا ہے کہ گھوڑے بیچ کر سوئی ہوئی ہے کہ ابھی تک ان ڈاکوئوں کو گرفتار کرنے سے قاصر ہے، ہماری اسمبلیوں کے اسپیکر صاحبان بھی اندھے اور بہرے ہیں کہ ان خائین باپ بیٹے کو ابھی تک اتنی بڑی ڈاکہ زنی پر ڈی سیٹ نہیں کیا ہے ،میں ان بند اور سوئی ہی آنکھوں کا ذمہ دار صرف اور صرف وزیر اعظم عمران خان کو گردانتا ہوں کہ وہ روز بھاشن تو ضرور دے رہے ہیں ،ان شریف برادران کے خلاف لیکن گرفتاری کا حکم نہ ایف آئی اے کہ سربراہ سے کوئی پوچھ گچ، عمران خان کو چاہئے کہ جہاں وہ روز ڈاکو ڈاکو کا شور ڈالتا ہے ،زرا ہمت کر کے قوم کو یہ بھی بتا دے کہ وہ کون سی طاقت ہے کون سا ہاتھ ہے جو ان کے خلاف ایکشن لینے سے روک رہی ہے ،جرنل ہے، جج ہے یا کوئی بیرونی ہاتھ جنس کو وہ absolutely no more کا جواب دے رہا تھا ،روک رہا ہے خان صاحب پلیز جرآت کا مظاہرہ کریں یا شکست تسلیم کریں ،آپ سے بہادر تو ارشد شریف ہے جس نے مافیا کے خلاف اتنی بے باکی کا مظاہرہ کیا یہ جانتے ہوئے کہ یہ بھٹیوں میں جلا دینے والے جلاد ہیں ۔
قارئین وطن! ابھی تو ارشد شریف کے شریفوں کے بارے ارب کی منی لانڈرنگ کے انکشاف نے سر چکرا دیا کہ جنوری کو اخباری مافیا جس کا سرگنہ میر شکیل الرحمان ہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے فرد جرم عائد کرنے کے بجائے کیس موخر کر دیا اور رانا شمیم اکیلے پر فرد جرم عائد کردی اطہر من اللہ کے اس فیصلے سے ہمارے جوڈیشل سسٹم پر جو قاری ضرب لگی ہے، مجھ کو پاکستان کاپہلا چیف جج منیر احمد یاد آگیا ہے ،میں اطہر من اللہ کو نیو یارک میں ملا ہوں جب وہ اس وقت کے چیف جسٹس چوہدری افتخار کے ساتھ امریکہ میں قائد تحریک عدلیہ رانا رمضان کی دعوت پر اس کا سپوکس پرسن بن کر آیا تھا ،خادم وطن کی اسکی ایک بدتمیزی پر منہ ماری بھی ہوئی جہاں اس نے چوہدری افتخار کے میزبان کے خلاف ایسے لوگوں کو میزبان بنا کر پیش کرنے کی کوشش کی جن کا افتخار چوہدری کے دورہ امریکہ کا دور دور کا واسطہ نہیں تھا، جو تحفہ تحائف کے واسطے سچ کو جھوٹ اور جھوٹ کو سچ بنا کر پیش کرنے والا ہے، میری اس سے منہ ماری کا تماشہ خود چوہدری افتخار نے بھی دیکھا تھا –
قارئین وطن ! مجھ کو جوڈیشل سسٹم کو بہت قریب سے دیکھنے اور بڑے بڑے ججوں اور بہت ہی چھوٹے چھوٹے ججوں کو سننے کا موقع نصیب ہوا ہے جیسے افتخار چوہدری جب اس نے مشرف کو نو کہا تو ایسا لگا کہ اللہ نے قوم کی سن لی اور پہاڑ جیسا شخص ہمارے جوڈیشل سسٹم کو مل گیا میں نے بھی رانا رمضان کی قیادت میں اس کے حق میں نعرے لگائے لیکن جب معلوم ہوا کہ نو جرنل کیانی کی طاقت کے بل بوتے پر تھی اور اس کی تحریک کو نواز شریف نے فنانس کیا تھا تو وہ پہاڑ ریت کا ٹیلہ لگا،میرے پچاس سالہ سیاسی کارکن کی زندگی میں نوٹ کیا کہ حادثاتی طور پر ایک آدھ اچھا کام کرنے والوں کو ہم نے اپنے سروں پر بٹھایا لیکن جب وہ اپنے خول سے باہر آئے تو مٹی کے مادو نکلے، اطہر من اللہ بھی انہی میں سے ایک ہے جب اس نے نیوی کے سیلنگ کلب اور فوج کے خلاف اور منال ریسٹورنٹ جیسے فیصلہ دیئے تو اس کی نیو یارک والی گری ہوئی حرکت کو بھول کر جسٹس کیکائوس سمجھ بیٹھے لیکن جب اس نے اخباری مافیا کے سامنے سر نڈر کیا تو پتا چلا کہ یہ بھی مٹی کا بت ہے جیسے عمران خان ،برادران نواز شریف اور آصف زرداری کے سامنے مٹی کا وزیر اعظم ہے، اس نے بھی ڈاکوئوں کے خلاف بڑھکیں مارنے کے سوا کوئی عملی اقدام نہیں کیا جس سے قوم کی مایوسی میں سو گنا اضافہ ہوا ہے،میں سمجھتا ہوں کہ ہمیں اپنے لیڈر اور اداروں کے سربراہوں کو پرکھنے میں فہم و فراست کو بروئے کار لانا چاہئے اور جلدی میں کوئی بڑا لقب نہیں دینا چاہئے اور اللہ سے دعا کریں کہ ہماری کھلی آنکھوں کو بینائی دے آمین-
٭٭٭