انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر عالمی تنظیمیں سراپاء احتجاج

0
141

اسلام آباد (پاکستان نیوز) پاکستان میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں پر ہیومن رائٹس واچ سمیت عالمی انسانی حقوق کی تنظیمیں پھٹ پریں، ہیومن رائٹس واچ نے پاکستانی حکومت کی جانب سے 33 سول مقدمات کو فوجی عدالتوں میں چلانے کے اقدام کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے موقف اپنایا ہے کہ ایسا کرنا بنیادی انسانی حقوق کی کھلی خلاف ورزی ہے جس پر سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا، ہیومن رائٹس واچ کی ایسوسی ایٹ ڈائریکٹر پیٹریشیا گوسمین نے کہا کہ پاکستانی حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ تشدد کرنے والوں کے خلاف قانونی کارروائی کرے، لیکن صرف آزاد اور غیر جانبدار شہری عدالتوں میں، پاکستان کی فوجی عدالتیں، جو خفیہ طریقہ کار کا استعمال کرتی ہیں جو کہ مناسب عمل کے حقوق سے انکار کرتی ہیں، ان کا استعمال عام شہریوں کے خلاف، یہاں تک کہ فوج کے خلاف جرائم کے لیے بھی نہیں کیا جانا چاہئے۔جن افراد کے مقدمات ملٹری کورٹس کو منتقل کیے گئے ہیں ان پر حساس دفاعی تنصیبات پر حملہ کرنے اور اہم سرکاری آلات، کمپیوٹرز اور ڈیٹا اکٹھا کرنے کے دیگر ذرائع کو نقصان پہنچانے یا چوری کرنے کا الزام ہے۔ پاکستان آرمی ایکٹ (PAA)، 1952، اور آفیشل سیکرٹ ایکٹ، 1923 فوجی عدالتوں میں عام شہریوں کو صرف مخصوص حالات میں مقدمہ چلانے کی اجازت دیتا ہے، بشمول بغاوت پر اکسانا، جاسوسی کرنا، اور “ممنوعہ” مقامات کی تصاویر لینا۔دریں اثنا انٹرنیشنل مانیٹرنگ فنڈز (آئی ایم ایف) نے بھی پاکستان کی سیاسی صورتحال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے پاکستانی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ قانون کے مطابق معاملات حل کرنے کی کوشش کریں ، ہیومن رائٹس واچ کے مطابق سیاسی وابستگی کی بنا پر گرفتار ہونے والے تمام افراد کو فوری رہا کیا جائے اور ان پر عائد الزامات کو ختم کیا جائے۔شہری اور سیاسی حقوق کے بین الاقوامی معاہدے (ICCPR) کا آرٹیکل 14 ہر ایک کو ایک مجاز، آزاد اور غیر جانبدار ٹریبونل کے ذریعے مقدمے کی سماعت کے حق کی ضمانت دیتا ہے۔ آئی سی سی پی آر کی تعمیل کی نگرانی کے لیے مجاز بین الاقوامی ماہر ادارے ہیومن رائٹس کمیٹی نے کہا ہے کہ فوجی یا خصوصی عدالتوں میں عام شہریوں کے مقدمے کی سماعت جہاں تک انصاف کی منصفانہ، غیر جانبدارانہ اور آزاد انتظامیہ کا تعلق ہے، سنگین مسائل پیدا کر سکتی ہے اور یہ کہ فوجی یا خصوصی عدالتوں کے ذریعہ عام شہریوں کے مقدمات کی سماعت غیر معمولی ہونی چاہئے، یعنی ان مقدمات تک محدود جہاں ریاستی فریق یہ ظاہر کر سکے کہ اس طرح کے مقدمات کا سہارا معروضی اور سنجیدہ وجوہات کی بنا پر ضروری اور جائز ہے، ہیومن رائٹس واچ نے کہا کہ بین الاقوامی انسانی حقوق کے معیارات پاکستانی حکام کو ان مقدمات کو فوجی عدالتوں میں چلانے کی کوئی بنیاد فراہم نہیں کرتے، خاص طور پر جب سویلین عدالتیں کام کر رہی ہیں۔ پاکستان کی فوجی عدالت کے جج حاضر سروس ہیں اور حکومت سے آزاد نہیں ہیں۔ ماضی میں پاکستان میں فوجی ٹرائلز کی آزادانہ نگرانی کی اجازت نہیں دی گئی۔ مدعا علیہان کو اکثر اپنے مقدمات میں فیصلوں میں ثبوت اور استدلال کے ساتھ فیصلوں کی کاپیاں دینے سے انکار کیا جاتا رہا ہے۔گوسمین نے کہا کہ لوگوں کو منصفانہ ٹرائل سے انکار پاکستان کی پیچیدہ سیکورٹی اور سیاسی چیلنجوں کا جواب نہیں ہے۔سویلین عدالتوں کو مضبوط بنانا اور قانون کی حکمرانی کو برقرار رکھنا پاکستانی حکومت کو تشدد کے موثر اور طاقتور جواب کے طور پر بھیجنا چاہئے۔دوسری طرف وزیر مملکت برائے خزانہ عائشہ غوث پاشا نے کہا ہے کہ عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے مشن چیف نیتھن پورٹر کا بیان پاکستان کے اندرورنی معلامات میں مداخلت ہے۔اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے عائشہ غوث پاشا نے کہا کہ بجٹ کلینڈر کے مطابق بجٹ کی تیاریاں ہو رہی ہیں لیکن حتمی تاریخ کی منظوری باقی ہے، مگر قومی اسمبلی میں اس کی پریزینٹیشن 9 جون کو کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ معاملات اچھے جا رہے ہیں اور وزیراعظم نے بھی بجٹ پر اجلاس طلب کرنا شروع کردیئے ہیں، مجھے لگتا ہے کہ 9 جون کو ہی منظور کریں گے۔عائشہ غوث پاشا نے کہا کہ عالمی مالیاتی فنڈ کے مینیجنگ ڈائریکٹر کو ملکی سیاسی معاملات میں مداخلت نہیں کرنی چاہیے، ان کا بیان پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت ہے۔انہوں نے کہا کہ ہم آئی ایم ایف پروگرام میں ہیں اور اس پروگرام میں مستقل موجود ہیں اور ہر صورتحال میں بجٹ بھی اسی طرح ہی تیار کرنا ہے، بجٹ آئی ایم ایف سے شیئر بھی ہوا ہے، ان سے اس پر بات چیت بھی ہو رہی ہے، امید ہے کہ اس میں پیش رفت ہوگی۔وزیر مملکت نے کہا کہ ہم خود چاہتے ہیں کہ آئی ایم ایف کی شرائط کو سامنے رکھتے ہوئے ہی بجٹ تیار کرنا ہے کیونکہ ہمیں معیشت کو استحکام کی طرف لے جانا ہے، ہماری کوشش ہے کہ موجودہ حالات میں ایسی بجٹ بنائیں کہ جس حد تک ہو سکے عام آدمی کو ریلیف فراہم کریں اور ان پر اب مزید بوجھ نہ پڑے۔انہوں نے کہا کہ پہلے موجودہ آئی ایم ایف پروگرام کو مکمل کرلیں پھر فیصلہ کریں گے کہ آگے کس طرح بڑھنا ہے۔عائشہ غوث پاشا نے کہا کہ آئی ایم ایف پروگرام میں ٹارگٹڈ سبسڈی کی اجازت ہے، ہم بھی یہی چاہتے ہیں کہ عام آدمی کو ریلیف دیا جائے، پوری قوم کو پتا ہے کہ اس وقت ہمارے معاشی حالات کیا ہیں اور پوری طرح آئی ایم ایف پروگرام مکمل کرنا قومی مفادات میں ہے۔ایک سوال کے جواب میں وزیر مملکت نے کہا کہ آئی ایم ایف اس طرح کے بیانات جاری نہیں کرتا اگر اس نے ایسی بات کی ہے تو یہ غیر معمولی بات ہے جو نہیں کرنی چاہئے، رہی بات قانون کی حکمرانی کی تو ہم اس کے تحت ہی آگے بڑھ رہے ہیں، ہم جمہوریت کے حامی ہیں اور چاہتے ہیں کہ تمام ادارے آئین میں رہ کر کردار ادا کریں۔انہوں نے کہا کہ آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات جاری ہیں اور ٹیکنیکل بنیادوں پر ہم پیش رفت کر رہے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ آئی ایم ایف کے ایم ڈی سے بات ہوئی ہے کہ ہم اس پروگرام کو مکمل کرنا چاہتے ہیں، جتنا جلد ہو سکے چیزوں کو تکمیل پر پہنچائیں، آئی ایم ایف بھی اس پر پیش رفت چاہتا ہے۔عائشہ غوث پاشا نے کہا کہ ہماری کوشش ہے کہ عام آدمی پر مزید بوجھ نہ ڈالیں اور جو چیزیں خلل ڈال رہی ہیں ان کو ٹھیک کریں، آئی ایم ایف میں رہتے ہوئے الیکشن سال کا بجٹ بھی ضرور ہوگا اور جو بھی بجٹ ہوگا وہ پاکستان کے مفاد میں ہوگا۔واضح رہے کہ گزشتہ روز آئی ایم ایف مشن چیف نیتھن پورٹر نے کہا تھا کہ وسیع پیمانے پر ‘موجودہ اقتصادی اور مالیاتی چیلنجز پر قابو پانے کے لیے پاکستان کے لیے مضبوط اور جامع نجی زیر قیادت ترقی کو دوبارہ حاصل کرنے کے لیے مستقل پالیسی کی کوششوں اور اصلاحات کی ضرورت ہوگی۔اگرچہ آئی ایم ایف ملکی سیاست پر کوئی تبصرہ نہیں کرتا تاہم پاکستان کے سیاسی عدم استحکام کا حوالہ دیتے ہوئے نیتھن پورٹر نے کہا تھا کہ انہیں امید ہے کہ ‘آئین اور قانون کی حکمرانی کے مطابق آگے بڑھنے کا ایک پرامن راستہ تلاش کیا جائے گا۔واضح رہے کہ 9 مئی 2023 کو پولیس کی جانب سے سابق وزیر اعظم عمران خان کو کرپشن کے الزام میں گرفتار کیے جانے کے بعد پورے پاکستان میں تشدد پھیل گیا۔ خان کے بہت سے حامیوں نے پولیس افسران پر حملہ کیا اور ایمبولینسوں، پولیس کی گاڑیوں اور اسکولوں کو آگ لگا دی۔ جن مقامات پر حملہ کیا گیا ان میں راولپنڈی میں ملٹری ہیڈ کوارٹر اور دیگر دفاتر اور اعلیٰ فوجی حکام کے گھر بھی شامل تھے۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here