قارئین کرام! امید ہے کہ آپ اپنے پیاروں کیساتھ خیریت سے ہونگے، ہم نے گزشتہ کالم میں وطن عزیز کی صورتحال کیساتھ امریکہ میں تارکین کو پیش آمد جن حالات پر اظہار کرتے ہوئے جس تماشے کو سمجھنے کا نہ سمجھانے سے تعبیر کیا تھا، لگتا ہے کہ تماشہ بازی میں خصوصاً پاکستان میں اضافہ ہی نہیں بحران کی کیفیت دستک دے رہی ہے۔ ہم نے گزشتہ ہفتے دو فریقوں یعنی عمران خان اور آرمی چیف کے درمیان چشمک کے معاملے میں دیگر اسٹیک ہولڈرز تک وسعت اور اس کے منفی اثرات کے جن خدشات کا اظہار کیا تھا، محسوس ہوتا ہے کہ وہ خدشات حقیقت کا روپ دھار رہے ہیں۔ ہم نے 26 ویں آئینی ترمیم کے تناظر میں اعلیٰ ترین عدلیہ کے مابین تفریق و تقسیم کی نشاندہی کرتے ہوئے عدلیہ و بار کے درمیان جس دراڑ کا امکان ظاہر کیا تھا، اسلام آباد ہائی کورٹ میں لاہور، کراچی و کوئٹہ کے ہائیکورٹس سے تین ججز کی تعیناتی کی صورت میں وہ دراڑ اس طرح سامنے آگئی ہے کہ ایک جانب تو اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججز کے خط کی صورت میں چیف جسٹسز پاکستان و اسلام آباد کے نام تحفظات سامنے آئے ہیں تو دوسری طرف مختلف وکلاء تنظیمیں ان تعیناتیوں کے حوالے سے متحارب ہیں۔ پاکستان بار ان کے خلاف سراپا احتجاج ہے تو سپریم کورٹ بار آئین کے آرٹیکل 200 اور اسلام آباد ہائیکورٹ ایکٹ 2010ء کے حوالے سے موافقت کا اظہار کر رہا ہے یہ معاملہ سیاسی حوالے سے حکمرانوں اور اپوزیشن کے درمیان بھی تنازع بنا ہوا ہے۔ ذرا سوچا جائے کہ یہ صورتحال نظام انصاف اور عدالتی توقیر و شفافیت کیلئے کس قدر نقصان دہ ہے، مزید یہ کہ اس کے نتیجے میں وکلاء کے احتجاج و ہڑتال سے سائیلین کتنے متاثر ہونگے، حقیقت تو یہ ہے کہ آرٹیکل 200 کے مطابق اسلام آباد ہائیکورٹ میں وفاق کی علامت ہوتے ہوئے تمام صوبوں اور ٹیریٹریز کی نمائندگی کو ملحوظ خاطر رکھا گیا ہے اور اس ناطے ہر صوبے سے ججز کی تعیناتی رکھی گئی ہے اور ہوتی رہی ہے لیکن حالیہ تعیناتی پر تحفظات حکمرانوں کی سیاسی غرض کے پہلو نے پیدا کر دیئے ہیں کہ لاہور سے متعین ہونیوالے جج کو سینئر ترین قرار دے کر موجودہ سینئر ترین جج کو چیف جسٹس بننے کے حق سے محروم کرنے کا اقدام کر کے حکومت اپنی پسند کے فیصلوں کیلئے یہ سب کچھ کر رہی ہے تاکہ ملک کی سب سے بڑی جماعت اور قائد کیخلاف فیصلے کروا سکے جو مقتدرہ کے مقصد پر مبنی ہوں اور پی ٹی آئی و عمران کیخلاف ہوں۔ سیاسی برتری اور مرضی کے مطابق فیصلوں کا یہ اقدام ملک اور عوام کیلئے ہی نہیں خود عدالتی نظام کیلئے بھی کس قدر نقصان دہ ہے، یہ ہر باشعور جانتا ہے۔ آزار و دشمنی کا یہ ریاستی کھیل وطن کو کس طرف لے جا رہا ہے، اس کا اندازہ ان مقتدرین کو بھی ہے جو بغض عمرانیہ میں ہر اقدام کو جائز سمجھتے ہیں لیکن اپنی ضد کے سبب اس صورتحال کو چاہتے ہیں۔ وطن عزیز جن اندرونی و بیرونی حالات سے گزر رہا ہے، دہشتگردی کا سامنا ہے اور اس کے خاتمے کیلئے جس طرح وطن کے بیٹے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر رہے ہیں، اس کی تازہ ترین مثال قلات میں گزشتہ ہفتے ہونیوالی دہشتگردی ہے جس میں 18 جوانوں کی شہادت ہوئی، آرمی چیف نے اس سانحہ کا افسوس بھی کیا اور دہشتگردی کے خاتمے کے عزم کا اعادہ بھی لیکن یہ احساس کرنے سے اعراض کیا کہ ملک میں امن و امان کے قیام کیلئے قومی وحدت اور تمام اسٹیک ہولڈرز کا اشتراک لازمی امر ہے، عمران خان اور پی ٹی آئی کیخلاف نا انصافی اور زیادتی کا سلسلہ ہنوز جاری ہے، مذاکرات کی کہانی بغیر کسی نتیجے کے انجام کو پہنچی، سیاسی چمتکاری کا کھیل محض اس لئے جاری ہے کہ مقتدرین کے بل بوتے پر حکمرانی کے مزے لوٹے جاتے رہیں۔ پاکستان جس بد امنی کے گرداب میں ہے اس کی پرواہ کسی کو نہیں۔
سیاسی عدم استحکام و بے یقینی کی اس صورتحال میں سیاستدانوں، مقتدرین کا جو کردار ہے وہ تو سب جانتے ہیں لیکن مین اسٹریم و سوشل میڈیا نے بُھس میں چنگاری ڈالنے اور آگ لگانے کا کام اپنا کر جو کام کرنے کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے وہ حالات کو مزید خراب کرنے کا واضح سبب ہے۔ اپنے ریٹنگ بڑھانے اور مال توڑنے کے چکر میں دو ٹکڑیوں میں بٹ کر ماحول کو مزید بگاڑ پیدا کرنے والے معاشرے کے یہ لوگ ملک و عوام کی خدمت نہیں، دشمنی کر رہے ہیں اور ہیجان خیزی میں مزید اضافے کے مرتکب ہو رہے ہیں ہمارا یہ احساس قوی ہوتا جا رہا ہے کہ اپنے مفادات کے تابع ریاستی، حکومتی سیاسی و میڈیا اور عدالتی اسٹیک ہولڈرز پاکستان و عوام کی بہتری، سالمیت و خوشحالی کے برعکس کسی ایسے ایجنڈے پر عمل پیرا ہیں جو پاکستان کے مفاد میں نہیں بلکہ ایسے عالمی ایجنڈے پر کام کر رہے ہیں جو پاکستان کو ایک کمزور و محکوم مملکت میں تبدیلی کا شاخسانہ بنے۔ کیا انہیں اس بات کا احساس ہے کہ ان کے یہ کھیل اس وقت تک ہیں جب تک پاکستان ہے، خدا نہ کرے اگر یہ ملک نہ رہا، تو ریاست، سیاست، حکومت، صحافت، عدالت کچھ بھی نہ رہے گا۔ وطن اور قوم کا وجود اتحاد و اتفاق سے ہی ہے۔
٭٭٭