فیضان محدّث اعظم پاکستان رضی اللہ عنہ
محترم قارئین! ویسے تو ہر رات ہی رحمت کے نزول کا ذریعہ ہے اور برکت ہی برکت ہے اس کی قدر تو پھر قدر والے ہی جانتے ہیں وہ لوگ جنہوں نے قدر کی وہ صحابہ کرام ، اہل بیت اطہار رضی اللہ عنھم اور کو غوث اعظم بنا، کوئی معین الدین بنا، کوئی امام اہل سنت بنا، کوئی محدّث اعظم پاکستان بنا اور کوئی شمس المشائخ نائب محدّث اعظم پاکستان بنا رضی اللہ عنھم اجمین بہرحال شب برآت اپنی عظمت اور شان کے اعتبار سے بڑی عظیم رات ہے۔ اس کی آمد آمد ہے شعبان المعظم کا بابرکت مہینہ چڑھ چکا ہے۔ شب ولادت مصطفیٰ ہو یا شب برآت ہو یا شب قدر ہو یا شب جزا ہو یعنی عیدالفطر کی رات ایسی مقدس ومطھر راتوں کا عطا کیا جانا اس میں بہت سی حکمتیں ہیں۔ مثلاً اگر پہلی اُمتوں کی عمروں کا حساب لگایا جائے تو ان کی عمریں صدیوں پر محیط ہیں۔ مگر امّت مصطفیٰۖ کی عمریں بہت کم ہیں اگر نیکیوں کا حساب لگایا جائے تو اُمت مصطفیٰ علیہ الصّلواة والسّلام کی نیکیاں کم ثابت ہوں گی۔ اللہ تعالیٰ چاہتا یہ ہے کہ میرے حبیبۖ کی اُمت کی عمریں اگرچہ تھوڑی ہیں مگر نیکیاں تو پوری یا زیادہ ہونی چاہئیں۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے حضور علیہ الصّلواة والسّلام کی عظمت کو برقرار رکھتے ہوئے ایسی متبرک راتیں عطا فرمائیں۔ دوسری حکمت یہ ہے کہ باقی سال میں جب ہم جاگتے ہیں تو رحمت کا نزول شروع نہیں ہوتا اور جب ہم سوتے ہیں تو رحمت کا نزول ہوتا ہے۔ علامہ عبدالرحمن صفوری شافعی نے ایک حکایت اپنی کتاب نزھة المجالس میں نقل فرمائی کہ ایک مرتبہ حضرت عیٰسی علیہ السّلام ایک سفر یں گزرتے ہوئے ایک پہاڑ کے پاس پہنچے تو دیکھا کہ پہاڑی کی چوٹی سے نور کی شعاعیں آسمان کی طرف اٹھ رہی ہیں۔ دیکھ کر رُک گئے۔ رُکے تو ذاتباری تعالیٰ نے فرمایا: اے عیٰسی! کیا آپ اس نظارے کی حقیقت کو دیکھنا چاہتے ہیں؟ عرض کی، جی!! اے اللہ! فرمایا: پھر پہاڑ کی چوٹی پر تشریف لائیے! چنانچہ آپ پہاڑ کی چوٹی پر تشریف لے گئے تو پہاڑ کی چوٹی شق ہوئی تو ایک بزرگ سفید ریس کو مصروف عبادت پایا۔ اور اس کے پاس پڑے ہوئے پھل دیکھ کر محو حیرت ہونے لگے کہ اتنے میں اس بزرگ نے نماز سے فراغت حاصل کی تو عیٰسی علیہ السّلام نے اس شخص سے سوال فرمایا کہ آپ کب سے یہاں مصروف عبادت ہیں؟ اس بزرگ نے جواباً فرمایا کہ مجھے اس پہاڑ کے اندر چار سو سال عبادت کرتے ہوئے گزر گئے۔ رات کو قیام کرتا ہوں اور دن کو روزہ رکھتا ہوں اور یہ پھل میری سحری اور افطاری کیلئے جنت سے آتے ہیں۔ اس پر حضرت عیٰسی علیہ السّلام نے سوچا کہ اس شخص سے بڑا عابد تو کوئی نہیں ہوگا۔ جو انتہائی سے ریا طریقہ سے عبادت کر رہا ہے۔ چنانچہ یہ خیال آیا ہی تھا کہ خاوند کریم نے فرمایا: اے عیٰسی! ایسا نہیں ہے بلکہ میرے رسول اور آخری حضرت محمد مصطفیٰۖ کی امت کو میں نے شعبان میں پندرھویں شب ایسی بابرکت عطا فرمانی ہے کہ اگر کوئی شخص اس رات جاگ کر قیام کرے اور دن کو روزہ رکھ لے تو میں چار سو سال سے زیادہ عبادت کا ثواب عطا فرمائوں گا۔ معلوم ہوا کہ اگر کسی شخص کو یہ چند راتیں ہی مل جائیں تو بے حساب ثواب مل جائے گا۔ تو حضورۖ کی امت کو دوسری امتوں کے مقابلے ندامت وشرمندگی نہیں ہوگی۔ بعض روایات میں یوں مذکور ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضور پاکۖ سے فرمایا کہ اے پیارے حبیب! کیا آپ اس بات پر ناراض تو نہیں کہ میں نے آپ کو سب رسولوں سے آخر اور آپ کی امت کو سب امتوں کے پیچھے بھیجا۔ آپ نے عرض کی: یا اللہ! ہرگز نہیں فرمایا: حبیب! آپ کو اس کی حکمت معلوم ہے؟ عرض کی یااللہ! تو بہتر جانتا ہے فرمایا: اس میں حکمت یہ ہے کہ تمام امتوں کے عیب آپ کی امت کے سامنے ہوں اور آپ کی امت کے عیب کسی کے سامنے نہ ہوں تاکہ طعنہ نہ دے سکے بلکہ آپ کی امت کے عیب یا میرے سامنے ہوں یا آپ کے میں غفور حیمہ ہوں اور تورئوف رحیمہ ہے۔ قرآن پاک کا نزول لیلة القدر رمضان المبارک میں تو سب کا اس پر اتفاق ہے اور یہ بات بھی مسلّم ہے کہ لیلة القدر رمضان پاک کی طاق رات ہے اور یہ بات تسلیم شدہ ہے کہ قرآن پاک کے نزول کی رات کو لیلة مبارکہ بھی کہا گیا ہے۔ اور یہ سورہ دخان پچیسویں پارے میں ہے۔ لیکن اس بات میں اختلاف ہے شب برآت یعنی شعبان المعظم کی پندرھویں رات نزول قرآن کی رات ہے یا نہیں کیونکہ اگر اس رات کو بھی نزول قرآن کی رات تسلیم کیا جائے تو مختلف وقتوں میں قرآن پاک کا اُترنا ماننا پڑیگا۔ اسی طرح ایک اور اختلاف بھی ہے کہ لیلة مبارکہ میں آئندہ سال میں انجام پانے والے امور کا فیصلہ ہوتا ہے تو یہ فیصلہ رمضان کی ستائیسویں رات کو بھی ہوتا ہے کیونکہ یہ نزول قرآن کی رات ہے۔ اور امور کے فیصلہ کو نزول قرآن کی رات میں بیان کیا گیا ہے۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنھما فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ شعبان کی پندرہویں شب کو ان مختلف امور کا فیصلہ فرماتا ہے جو آئندہ سال وقوع پذیر ہونے والے ہیں۔ اور ان سے متعلق فیصلہ کی کتب فرشتوں کو لیلة القدر میں دی جاتی ہیں اور قرآن کے نزول کے فیصلہ کے متعلق بھی علماء کا قول ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جب قرآن کے نزول کا حکم دیا کیا تو لیلة المبارکہ یعنی شب برآت تھی اور جب نزول شروع ہوا تو لیلة القدر تھی۔ اسی طرح فرمایا کہ قرآن پاک جب لوح محفوظ سے آسمان دنیا پر اتارا گیا تو لیلة البرآت تھی اور جب آسمان دنیا سے نبی اکرمۖ کے سینہ اطہر پر نزول شروع ہوا تو لیلة القدر تھی۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ہر اچھا کام کرنے کی توفیق عطا فرمائے(آمین)۔
٭٭٭٭٭