محترم قارئین کرام آپکی خدمت میں سید کاظم رضا نقوی کا سلام پہنچے آج کا موضوع خاص پردیسیوں کیلئے ہے جن سے رابطہ اس اخبار کے توسط سے رہتا ہے ہر چند بیرون ملک رہنے والے زیادہ وقت اپنی روزی روٹی کمانے اور اس کی سعی میں ایک جگہ سے دوسری جگہ جانے میں صرف رہتے ہیں اس وجہ سے زندگی کا ایک بڑا حصہ ان کو اپنوں سے دور رہتے گزر جاتا ہے ،پریس والوں کا ایک بڑا دُکھ اپنے ملک سے اپنے عزیز و احباب سے دوری اور اپنے دوستوں سے دوری ہوتا ہے جس کو لیئے وہ زندگی گھسیٹ رہے ہوتے ہیں عموما پردیسی جو بیرون ملک شہریت رکھتے ہیں وہ زندہ واپس نہیں جاتے بلکہ انکے مردہ جسم وہاں دفنانے کیلئے منتقل کیے جاتے ہیں وجہ انکی آخری خواہش کا احترام اور مادر وطن میں دفن ہونا انکے پاس اکثر کسی دوست احباب کا فون آئے تو سمجھ جانا چاہئے اس کو یقینا کوئی معاشی تنگی ہے یا کسی بچے کو بیرون ملک بھیجنے میں معاونت درکار ہے یا پھر کسی شادی یا علاج میں پیسوں کی ضرورت ہے وگرنہ انسان وطن چھوڑنے کے بعد ایک طرح سے انتقال کرجاتا ہے ماں باپ کی زندگی تک تو شائد رشتہ دار احباب پوچھ لیں لیکن انکا سایہ رحمت جاتے ہی زمانے کا بے رحم چہرہ اور وقت و حالات سامنے آجاتے ہیں !
آج کی حکایت جو مندرجہ زیل کالم میں پیش خدمت ہے یہ لکھی تو ایک جانور پر گئی ہے لیکن جو پردیسی اس صورتحال سے دوچار ہوتے ہیں اپنی نسل کو تعلیم دینے نئے ملک میں مواقع تلاش کرنے ترقی کے خواب سجائے وہ جب اپنا ملک اپنا معاشرہ چھوڑتے ہیں تو وہ واقعی انتقال کرجاتے ہیں باقی اس کے بعد جو کچھ ہوتا ہے وہ دل کا حال لکھ چکا ہوں لیکن قارئین آپ برُا نہ منائیے گا یہ ہمیشہ کی طرح میری ذاتی رائے ہے جس سے اتفاق بھی کیا جاسکتا ہے اور اختلاف بھی جو کچھ زمانے میں ہوتا دیکھ چکا ہوں اس کو مدنظر رکھ کر سب لکھ گیا جزبات کی رو میں بہہ کر شاید آپ پڑھ کو متفق ہوں انتقال کا مطلب ہی شفٹ ہوجانا ہے چاہے ایک ملک سے دوسرے ملک یا اس جہاں سے دوسرے جہاں اس لفظ سے نفرت نہ کریں نہ اس کا خوف دل میں لائیں یہ تو ہوتا ہی ہے کوء چاہے یا نہ چاہے ،دیکھنا پچھتاوا نہ رہ جائے!
سانپ نے مرغی کو کاٹ لیا، زہر اس کے جسم کو جلا رہا تھا۔ مرغی نے اپنی پناہ گاہ یعنی مرغی خانے میں پناہ لینے کی کوشش کی لیکن دوسری مرغیوں نے اسے نکال دینا بہتر سمجھا تاکہ زہر نہ پھیلے۔ مرغی لنگڑاتے ہوئے چلی گئی، باہری درد سے زیادہ اندر کی تکلیف سے روتی ہوئی۔وہ سانپ کے کاٹنے سے نہیں، بلکہ اپنے خاندان کی طرف سے اگنور کرنے اور ان کی بے حسی و حقارت سے زیادہ دُکھی تھی، جبکہ اسے ان کی سب سے زیادہ ضرورت تھی۔وہ چلی گئی، بخار میں تپتی ہوئی، ایک ٹانگ گھسیٹتے ہوئے، سرد راتوں کے رحم و کرم پر۔ ہر قدم پر ایک آنسو گرتا۔مرغی خانے میں موجود دوسری مرغیاں اسے دور جاتا دیکھتی رہیں، اور اسے افق میں گم ہوتا ہوا دیکھ کر کچھ نے کہاکہ جانے دو۔۔۔ وہ ہم سے دور جا کر مر جائے گی اور جب وہ مرغی آخرکار اُفق کی وسعت میں گم ہو گئی، تو سب نے یقین کر لیا کہ وہ مر چکی ہے۔کچھ نے تو آسمان کی طرف دیکھا، گدھوں کو اڑتا دیکھنے کی اُمید میںوقت گزرتا گیا۔ایک دن ایک ہمنگ برڈ پرندہ مرغی خانے آیا اور خبر دی۔تمہاری بہن زندہ ہے! وہ ایک دور کی غار میں رہتی ہے۔ وہ صحت یاب ہو گئی ہے، لیکن سانپ کے کاٹنے کی وجہ سے ایک ٹانگ کھو چکی ہے۔ اسے کھانے کی تلاش میں مشکل ہو رہی ہے اور اسے تمہاری مدد کی ضرورت ہے۔
خاموشی چھا گئی اور پھر بہانے شروع ہو گئے۔۔۔
میں نہیں جا سکتی، میں انڈے دے رہی ہوں۔۔۔
میں نہیں جا سکتی، میں دانہ ڈھونڈ رہی ہوں۔۔۔
میں نہیں جا سکتی، مجھے اپنے بچوں کی دیکھ بھال کرنی ہے۔۔۔
ایک ایک کر کے سب نے انکار کر دیا، پرندہ بغیر کسی مدد کے غار کی طرف لوٹ گیا،پھر وقت گزرتا گیا،بہت بعد میں، پرندہ دوبارہ آیا، لیکن اس بار افسوسناک خبر کے ساتھ کہ تمہاری بہن وفات پا چکی ہے۔ وہ غار میں اکیلی مر گئی۔کوئی اسے دفنانے یا اس کا ماتم کرنے والا نہیں۔اس لمحے، سب پر بوجھ آ گیا،مرغی خانے میں گہرے افسوس کی لہر دوڑ گئی،انڈے دینے والی مرغیاں رک گئیں۔دانہ ڈھونڈنے والوں نے بیج چھوڑ دیئے۔بچوں کی دیکھ بھال کرنے والی مرغیوں نے انہیں ایک لمحے کے لیے بھلا دیا۔ پچھتاوے نے کسی بھی زہر سے زیادہ تکلیف دی۔انہوں نے خود سے پوچھا کہ “ہم پہلے کیوں نہ گئے؟”
اور بغیر فاصلہ دیکھے راستے کو ناپے، سب غار کی طرف روانہ ہو گئے، روتے اور افسوس کرتے ہوئے۔ اب ان کے پاس اسے دیکھنے کی وجہ تھی، لیکن بہت دیر ہو چکی تھی،جب وہ غار پہنچے، تو انہیں مرغی نہیں ملی۔صرف ایک خط ملا جس میں لکھا تھا کہ “زندگی میں، اکثر لوگ آپ کی مدد کے لیے سڑک پار نہیں کرتے، لیکن آپ کو دفنانے کے لیے دنیا عبور کر لیتے ہیں اور جنازوں پر زیادہ تر آنسو درد کے نہیں، بلکہ پچھتاوے اور شرمندگی کے ہوتے ہیں۔
سبق: دوسروں کی زندگی میں ان کے مشکل وقت میں مدد کریں، کہیں ایسا نہ ہو کہ بعد میں پچھتاوا رہ جائے۔
یہاں یہ حکایت ختم ہوء جو لفظ لفظ حقیقت پر مبنی ہے آجکل کے دور میں جہاں خون سفید ہو چکے ہیں، رشتے اپنا تقدس رکھنے میں مشکلات کا شکار ہیں ،دعا ہے کوئی پردیسی بھی ایسی تکلیف دہ صورتحال کا سامنا نہ کرے جو اس مرغی کو کرنا پڑا کیونکہ مرغی ہو یا انسان ایک زندہ جان تو ہے اس کو اپنوں کی ضرورت ہے انکی محبت کی ضرورت ہے ان سے دکھ درد بانٹنے کی ضرورت ہے یہی زندگی ہے اور بندگی والی، احساس والی، شعور والی،
ملتے ہیں اگلے ہفتے کسی نئے موضوع کے ساتھ دعائیں و نیک تمنائیں
خیر اندیش!
٭٭٭