والدین کے فرائض !!!

0
47
رعنا کوثر
رعنا کوثر

قارئین آج کا میرا موضوع لڑکیوں کے رشتے اور اچھے اور شریف لڑکوں کی کمیابی سے ہے۔ اس ملک یعنی امریکہ میں آئے ہوئے والدین کو ہم مختلف درجات میں بانٹ سکتے ہیں۔ ایک وہ والدین ہیں جو کے یہاں پچاس سال پہلے آئے ان کے بچے بڑے ہو کر اب یہاں کے ماحول کو اپنا کر اپنی کمیونٹی سے دور ہوچکے ہیں۔ کیونکہ اس وقت مسلمان اور دیسی لوگوں کی کمی تھی اس کے بعد وہ والدین ہیں جو تیس سال پہلے آئے اس وقت اچھی خاصی کمیونٹی آباد تھی مسلمان بھی اور دیسی بھی۔ اور ایک وہ والدین ہیں جو دس بیس سال پہلے آئے اور اب تو یہاں کا ماحول لیکر بدل چکا ہے۔ بہت مسلمان آباد ہیں ہر طرف مسجدیں ہیں۔ اردو بولنے والے ہیں۔ جو لوگ اب سے تیس سال پہلے آئے وہ اپنا ملک اپنی زبان تلاش کرنے میں اپنے لوگوں سے بہت زیادہ قریب ہوگئے۔ یوں آنا جانا بڑھا پر چھٹی کا دن کسی نہ کسی دوست کے ہاں گزر جاتا ہے۔ بچوں کو لیا اور کسی دوست کے گھر شام گزاری۔ والدین ایک کمرے میں گپ شپ میں مصروف اور لڑکے لڑکیوں کی ٹولی دوسرے کمرے میں گپ شپ کر رہی ہوتی ہے والدین خوش کے ہم اپنے بچوں کو سیر کرا کر آگئے۔ پانچ دن باہر جاکر کام کرنا اور باقی چھٹی کا دن شاپنگ لانڈری اور شام دوستوں کے گھر کی سیر کیا آپ کو اپنے بچوں کے ساتھ وقت ملا؟ آپ کو اپنی بڑھتی عمر کے بچوں کو خاص طور سے الگ وقت دینا ہوتا ہے۔ مسجد، مدرسہ دوست احباب سب سے بڑھ کر والدین کی محبت دوستی اور پھر نصیحت کام آتی ہے۔ جو زیادہ تر ہمارے دیسی بچوں کو میسر نہیں ہے۔ والدین کی پاکستان سے محبت اتنی بڑھی ہوئی ہے کہ وہ ہر طرح کے کمیونٹی کام میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے سکتے ہیں مگر گھر میں بیٹھ کر بچوں کو وقت نہیں دے سکتے ہیں۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ بچے دوستوں کی زیادہ سنتے ہیں اور والدین کی کم بلکہ والدین تو ان کو سمجھ ہی نہیں پاتے ہیں۔ جب شادی کا وقت آتا ہے تو لڑکیاں جو اب بھی ہمارے ماحول کو سمجھتی ہیں، شرافت سے اچھے لڑکوں کی تلاش میں نکل جاتی ہیں اور اچھے لڑکے بہت ہی کم رہ گئے ہیں ،زیادہ تر لڑکے اپنے ماحول کو بھول کر ان لڑکیوں سے صرف ملنا ملانا کرکے وقت گزار کر دوچار دفعہ گھوم پھر کر جب شادی کی بات شروع ہوتی ہے تو غائب ہو جاتے ہیں۔قسمت سے اچھے لڑکے مل جائیں تو بہت ساری شادیاں بھی اس ملک میں ہو رہی ہیں مگر کئی لڑکیاں بہت ہراساں ہیں۔ وقت گزر رہا ہوتا ہے عمر بڑھ رہی ہوتی ہے والدین کے کہنے کے مطابق اپنی ہی کمیونٹی میں لڑکا دیکھ رہی ہوتی ہیں ایک تو چوائس کم اور پھر لڑکوں کی لاپرواہی اور بے وفائی عروج پر ہے۔ والدین اتنے بے خبر ہیں کے وہ لڑکیاں ہی تلاش کرتے رہتے ہیں۔رشتے والیوں کو فون دوستوں کو فون کے کوئی اچھی لڑکی بتائو مگر لڑکے کا مزاج اگر دیسی لڑکی کو پسند ہی نہیں کرتا تو ان کو یہ سب اس وقت سمجھ آتا ہے جب وہ کوئی دوسری قوم کی لڑکی گھر لا کر والدین کو صدمے میں لے آتا ہے۔ اپنی اولاد کو پہچانیں ان کے ساتھ زیادہ سے زیادہ وقت گزاریں اور ان کو اس بات سے منع کریں کہ رشتہ کرنے کے بہانے لڑکیوں سے دھوکہ نہ کریں۔ اگر ان کی پسند کچھ اور ہے تو اسے قبول کریں تاکے وہ والدین سے کچھ نہ چھپائیں۔ یہی بہتر ہے اصول ہیں ان پر عمل کریں شاید یہاں کے ماحول میں ہم کامیابی سے اپنے بچوں کو بچا سکیں۔
٭٭٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here