صدر ٹرمپ ویٹرس کو ایچ ون ویزا دینگے!!!

0
64
حیدر علی
حیدر علی

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جب اپنی کابینہ کا پہلا اجلاس طلب کیا تواُن کا موڈ انتہائی خوشگوار تھا، کابینہ کا اجلاس اُنہوں نے امیگریشن اور دوسرے مسائل پر غور و خوض کیلئے بلایا تھا، بلکہ یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ امیگریشن کاموضوع سر فہرست تھا، چند سیکرٹریز کے اظہار خیالات کے بعد صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی لب کشائی کی اور کہا کہ H-1B visasکے بارے میں اُنہیں جتنا تجربہ ہے وہ کسی اور کو نہیں، ماضی میں وہ کئی ہاؤس کیپرز کو ایچ ون بی ویزاز پر امریکا بلایا تھا اور اُن کی خدمات حاصل کی تھیں،اِسی دوران امریکا کے سیکرٹری دفاع پیٹی ہییگتھ نے مداخلت کی اور اُن سے پوچھ لیا کہ آیا اُن ماؤں کا تعلق جنوبی امریکا سے تھا یا وہ یورپ کی گوریاں تھیں؟ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے مسکراتے ہوئے جواب دیا کہ وہ ہمیشہ یورپ کی حسیناؤں کو ترجیح دیتے ہیں، سیکرٹری آف اسٹیٹ مارکو روبیو خاموش نہ رہ سکیں اور کہا کہ یورپ کی خواتین دبلی پتلی ہوتی ہیں لیکن بعض کی جلد بہت زیادہ سفید ہوتی ہے جس سے اُن کا حسن متاثر ہوجاتا ہے، صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے چست رفتاری سے جواب دیا کہ کون جلد کی سفیدی یا جسم کے وزن کو دیکھتا ہے جو مل جائے اُسے خوش آمدید کہنا چاہئے، روبیو!ایسا نہ ہو کہ کوئی جنسی ہراسگی کا الزام عائد کردے،ایک قہقہہ کابینہ کے اجلاس میں بلند ہوگیا، اور اُسی کے ساتھ ہیلتھ اینڈ ہیومن سیکرٹری رابرٹ ایف کینیڈی (جونئیر ) گویا ہوئے اور کہا کہ عورتوں کے جسم کے بارے میں اُنہیں جتنا علم ہے شاید کسی اور کو نہیں، اُنہوں نے کہا کہ اٹلی اور ترکی کی لڑکیاں خوبصورتی میں اپنا جواب نہیں رکھتیں ، امریکی لڑکیاں خوبصورت اِسلئے نہیں ہوتیں کیونکہ وہ اپنے ڈائیٹ پر کنٹرول نہیں رکھتیں اور اُنکی عادات بھی عجیب الخلقت ہوتی ہیں، اِس کی وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ اُن پر دباؤ بہت زیادہ ہوتا ہے، اُنہیں اپنی آزادی برقرار رکھنے کیلئے ملازمت کرنا پڑتی ہے، اِسلئے میں سمجھتا ہوں کہ ہمیں ایچ ون بی ویزا صرف یورپی خواتین کو دینا چاہیے، گھریلو کام کرنا اُن کا ٹریڈیشن ہے،واضح رہے کہ رابرٹ ایف کینیڈی جب چالیس سال کے تھے تو وینیٹی فیئر میگزین نے اُن کے بارے میں ایک اسٹوری شائع کی تھی جس میں یہ انکشاف کیا گیا تھا کہ اُنہوں نے اپنے گھر کی ایک 23 سالہ ملازمہ الیزا کونی سے زبردستی جنسی تعلقات قائم کئے تھے اور ایک مرتبہ جب وہ ایک بیڈ روم میں تنہا تھے تو اُسے مجبور کیا تھا کہ وہ اُن کے جسم کو لوشن سے مالش کرے تاہم جب اسٹوری وینیٹی فیئرمیں شائع ہوئی تو کینیڈی نے کونی کو ایک ٹیکسٹ بھیجا اور معذرت چاہتے ہوئے تحریر کیا کہ اُنہیں یاد نہیں کہ کوئی ایسا واقع وقوع پذیر ہوا تھا لیکن پھر بھی معذرت خواہ ہوں کہ اُن کے کسی کرتوت نے اُس کی دِل آزاری کی ہوئی ہو۔صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پھر مداخلت کی اور کہا کہ ایچ ون بی ویزاز پر صرف انجینئرز کو امریکا میں کام کرنے کیلئے بلانا سراسر نا انصافی پر مبنی ہے، گھریلو خواتین کے علاوہ ویٹرس ، فیشن ڈیزائینر اور ایئر ہوسٹس کو بھی ورکنگ ویزا پر امریکا بلانا چاہئے، اِسی لمحہ سیکرٹری دفاع پیٹی ہیگتھ نے پوچھ لیا کہ ویٹرس یا ائیر ہوسٹسوں کی چھاتیوں کی ناپ کیا ہونی چاہئے کیا اِس کی وضاحت بھی ضروری ہے، صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سرگوشی میں کہا کہ 40 DDD سب اِس پر مسکرا پڑے۔قطع نظر اِس امر پر فیصلہ کُن نتیجے کہ کن لوگوں کو H-1 B visas سے نوازا جائے صدر ڈونلڈ ٹرمپ مائیگرنٹس کے مسئلے سے دوچار ہوگئے،صدر ٹرمپ کیلئے یہ معمولی بات نہ تھی کہ غیر قانونی مائیگرنٹس کے بھرے ہوئے دو طیاروں کو کولمبیا نے اپنے ملک کی سرحد میں داخل نہ ہونے دیا اور واپس امریکا بھیج دیا، کولمبیا جنوبی امریکا کا سر فہرست ملک ہے جس کے تعلقات امریکا سے بہت مستحکم ہیں،مذکورہ ملک یہ توقع لگائے بیٹھا تھا کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دور میں دونوں ممالک کے تعلقات مزید وسیع ہونگے لیکن گزشتہ اتوار کو اِس میں بھونچال آگیا جہاں ساؤتھ امریکا کے ممالک کولمبیا کے صدر گسٹاپو پیٹرو جو ایک انقلابی اور جن کا تعلق بائیں بازو سے ہے اُن سے درخواست کرتے رہے کہ وہ صبر و تحمل سے کام لیں اور صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے پنگا نہ لیں، اِدھر ڈونلڈ ٹرمپ کو بھی امریکی سفارت کار اور ماہر معاشیات مشورہ دیتے رہے کہ وہ ملک کی خارجہ پالیسی کو فٹ بال کا کھیل نہ سمجھیں اور ہر اقدام کو انتہائی غورو خوض کے بعد اٹھائیں، اُن کا موقف تھا کہ اگر امریکا میکسکو ، کولمبیا ، گوئٹے مالا اور ڈومینیکن ریپبلک پر اقتصادی پابندی عائد کر تا اور جوابا”یہ ممالک بھی امریکی اشیاء خریدنے سے گریزاں ہوجاتے ہیں تو امریکا کو ہر ماہ ٹریلین آف ڈالرز سے ہاتھ دھونا پڑیگا۔
نیویارک کے پرانے باسیوں کا کہنا ہے کہ مین ہٹن میں واقع ٹرمپ پلازہ بذات خود غیر قانونی مائیگرنٹس کے خون و پسینہ کا شاہکارہے جہاں مزدور دِن بھر محنت مزدوری کیا کرتے تھے اور رات میں شب بستری بھی لوہے کی سلاخیں اور لکڑی کے تختے پرکرنا اُن کا معمول ہوا کرتا تھا، یہ دستور ماضی میں بھی تھا اور آج بھی ہے، آج بھی نیویارک میں تعمیر ہونے والی سینکڑوں فلک بوس عمارتیں اِن ہی مائیگرنٹس کے دست و بازو کی مرہون منت ہیں ، اُن کے عمل و دخل کے بغیر کنسٹرکشن کا کام ٹھپ ہوکر رہ جائیگا،ایک اندازے کے مطابق کنسٹرکشن کے شعبہ میں دو لاکھ کے قریب غیر قانونی مائیگرنٹس وابستہ ہیں ، جبکہ ہوٹل اور ریسٹورنٹس میں ایک لاکھ، بے بی سٹنگ اور ہوم کیئر میں ایک لاکھ ، اسٹورز اور سپر مارکیٹ میں ایک لاکھ غیر قانونی مائیگرنٹس کی نمائندگی ایک جیتی جاگتی حقیقت ہے جن سے چھٹکارا حاصل کرنا ناممکن ہے۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here