صدارت سنبھالنے کے بعد مسٹر ٹرمپ نے بڑے معصومانہ انداز میں کہا کہ فلسطینی دوسرے ممالک میں منتقل ہو جائیں تو انہیں خلل ، انقلاب اور تشدد کے بغیر زندگی گزارنے کا موقع ملے گا۔ یعنی جو طاقت مظلوم پر تشدد کر رہی ہے اسے روکنے کی بجائے مظلوم کو مشورہ دیا جا رہا ہے کہ اپنا گھر بار ،زمین جائیداد ظالم کے حوالے کر کے کہیں خانہ بدوش ہو جائے۔ ویسے تو اس قسم کی تجویز غیر انسانی ہی کہی جا سکتی ہے لیکن جب یہ دنیا کے طاقت ور ترین ملک کے طاقت ور ترین شخص کی زبان سے اد ا ہو تو اسے سنجیدگی سے بھی لینا پڑتا ہے اور اس سے یہ اندازہ بھی ہو جاتا ہے کہ مستقبل قریب میں دنیا کی طاقت ور ترین ریاست اسرائیل ( اور غالبا بھارت) کے ساتھ مل کر مسلمانوں اور اپنے تمام مخالفین کا کیا حال کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ اقوام متحدہ موجودہ دور میں عملی طور پر غیر فعال ادارہ بن چکا ہے لیکن پھر بھی اسکے ترجمان نے اس تجویز کی مخالفت کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ ادارہ کسی بھی ایسے منصوبے کی مخالفت کرے گا جو کسی قوم کی جبری منتقلی یا نسل کشی پر مبنی ہو۔ عرب لیگ کے علاوہ جرمنی، فرانس اور سپین نے اس تجویز کی مخالفت کی ہے۔ کرسی صدارت سنھبالنے کے بعد مسٹر ٹرمپ کے لیے دو سب سے بڑے چیلنج ، روس یوکرائن جنگ اور فلسطین کا مسئلہ ہیں۔ حماس اور اسرائیل کے درمیان جنگ بندی تو ہو چکی ہے لیکن ماہ کی جنگ کے دوران فلسطین (غزہ)کا کم از کم ساٹھ فیصد علاقہ مکمل طور پر تباہ ہو کر ملبے کے ڈھیر میں تبدیل اور پچاس ہزار کے قریب فلسطینی شہید اور سوا لاکھ سے زیادہ زخمی ہو چکے ہیں۔ ویسے تو اسرائیل نے جو کچھ اس عرصے میں کیا ہے اسے جنگ کہنا چاہئے یا فلسطینیوں کی نسل کشی یہ ایک الگ بحث ہے لیکن امریکہ کے نو منتخب صدر مسٹر ڈونلڈ ٹرمپ نے اس مسئلے کے حل کے لیے جو تجویز دی ہے وہ مضحکہ خیز ہونے کے ساتھ ساتھ مسلمانان عالم کے لیے لمحہ فکریہ بھی ہے ۔ پچھلے دنوں انہوں نے ایک نہیں دو مختلف مواقع پر کہا ہے کہ انکے خیال میں فلسطینیوں کو اپنے گھر بار اور علاقہ چھوڑ کر پڑوسی عرب ممالک (خاص طور پر مصر اور اُردن)منتقل ہو جانا چاہئے۔ انکے مطابق اگر پندرہ لاکھ کے قریب فلسطینی غزہ سے نقل مکانی کر جائیں تو غزہ کے علاقے کی صفائی ہو جائے گی۔(کسی ملک یا علاقے کی آبادی کے متعلق اس سے زیادہ تحقیر آمیز الفاظ کیا ہونگے؟)اردن اور مصر نے فوری طور پر اس تجویز کی مخالفت کی ہے ۔ یہ الگ بات ہے کہ یہ مخالفت فلسطینیوں کی ہمدردی میں نہیں بلکہ اس ڈر سے کہ کہیں انہیں اپنے ملک میں اتنے فلسطینیوں کو آباد نہ کرنا پڑ جائے۔ اسکا ثبوت مصر کے صدر کا بیان ہے جس میں انہوں نے کوئی لگی لپٹی رکھے بغیر کہا ہے کہ مصر کے لیے یہ تجویز نا قابل برداشت ہے کیونکہ اس سے انکے ملک کی داخلی سکیورٹی کے لیے مسائل پیدا ہونگے ۔ انہوںنے مزید کہا فلسطینیو ں کی نقل مقانی جیسے بے انصافی میں ہم حصہ نہیں لے سکتے۔ کیا وہ دبے الفاظ میں دراصل یہ کہنا چاہ رہے ہیں کہ اس بے انصافی میں انکے ملک کو براہ راست طور پرشامل نہ کیا جائے تو انہیں کوئی اعتراض نہ ہوگا؟ دوسری جانب اپنی تجویز پیش کرتے ہوئے اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ یہ تجویز تمام انسانی حقوق اور بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہے اور ہیومن ٹریفکنگ کے زمرے میں آتی ہے۔ یہاں تک کہ اگر فرض کیا جائے کہ کچھ فلسطینی اس نقل مقانی پر تیار بھی ہو جائیں تو بھی اقوام متحدہ کے چارٹر کے مطابق یہ جبری نقل مقانی غیر قانونی اور ہیومن ٹریفکنگ کے مترادف ہو گی ۔ مسٹر ٹرمپ نے اپنی تجویز میںیہ نہیں بتایا کہ یہ پندرہ لاکھ انسان جب اپنا گھر بار چھوڑ کر در بدر ہونے کے لئے نقل مقانی کر جائیں گے تو اسرائیل انکی خالی کردہ زمین پر قبضہ کرنے میں کتنے دن یا گھنٹے لگائے گا۔ انہوںنے اس پر بھی کوئی رائے زنی نہیں فرمائی کہ حماس، فلسطین اور اسرائیل سمیت تمام فریقین کی رضامندی اور شرکت کے بغیر کوئی بھی امن منصوبہ کیسے اور کتنی دیر کے لیے کامیاب ہو گا۔ اس کے علاوہ ایسے کسی بھی امن منصوبے کی بنیاد اقوام متحدہ کی قراردادوں اور بین الاقوامی قوانین پر ہونی چاہئے ۔ لیکن طاقت کے نشے میں چور مسٹر ٹرمپ نے نہ تو کسی بین الاقوامی قانون کی پرواہ کی ہے اور نہ ہی اقوام متحدہ کی قراردادوں کی۔ ماضی پر نظر دوڑائیں تواگر کبھی فلسطین میں پائیدار امن کی امید ہوئی تھی تو وہ1993 میں ہوا تھا جب یاسر عرفات نے اسرائیل کے ساتھ معاہدہ کیا تھا(جو اوسلو منصوبہ کہلایا) ۔ پھر اسرائیل کے اندر اس منصوبے کی مخالفت شروع ہو گئی اوراس کے سب سے بڑے مخالف موجودہ اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہوتھے۔ نومبر 1995کو یاسر عرفات کے ساتھ معاہدہ کرنے والے مسٹر رابن کو صیہونییوں نے قتل کر دیا۔جن ممالک نے مقبوضہ بیت المقدس کے لیے امریکہ کی زبانی مخالفت کرنے کی ہمت نہیں کی ان سے کشمیر کے لیے کوئی توقع رکھنا فضول ہی نہیں، حماقت ہو گی۔آج کی دنیا میں ہمیں ملکی مفاداتاور مشترکہ دشمنوں کی بنیاد پر خارجہ پالیسی اور اتحادی بنانے ہونگے ۔ دوسرا یہ کہ اپنے آپ کو معاشی اور فوجی لحاظ سے اتنا مضبوط بنانا ہو گا کہ اپنا حق بزور طاقت حاصل کرنے کے قابل ہو جائیں۔ اگر یہ نہیں کر سکتے تو پھر اپنا حق چھوڑ کر چپ چاپ ایک سائید پر بیٹھ جائیں۔ نہ تو تقریروں سے کچھ ملنا ہے اور نہ ہی اقوام متحدہ کی کسی قرار داد پر جمہوریت، سچائی اور حق کی بنیاد پر کوئی عمل ہونا ہے۔ اتنا ہی نہیں بلکہ اس اوسلو منصوبے کی مخالفت ، نفرت انگیزی اور اسلام دشمنی کو مسٹر بنجمن نیتن یاہو نے اپنی سیاست چمکانے اور الیکشن جیتنے کے لیے اسی طرح استعمال کیا جیسے مسٹر مودی اسلام دشمنی کو اپنے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کر کے ایک نہیں بلکہ دو بار بھارت کے وزیر اعظم منتخب ہونے میں کامیاب ہو گئے۔ یہی سب کچھ اسرائیل میں بھی ہوا ۔ مسٹر ٹرمپ نے اپنے پہلے دور حکومت میں ایک دو ریاستی امن منصوبہ پیش کیا تھا جس کو دیکھ کر لگتا تھا کہ فلسطین کے مسلمانوں کے لیے خود انکی زمین تنگ کرنے کی تیاری اور منصوبہ بندی کی جا رہی ہے۔ مسٹر ٹرمپ کے کرسی صدارت سنبھالنے کے دوسرے دور کے آغاز میں ہی یہ جو نیا لیکن مبینہ امن منصوبہ پیش کیا ہے اس سے تو لگ رہا ہے کہ اب کی بار فلسطین کے مسلمانوں کے لیے ان کے اپنے ملک میں زمین تنگ نہیں بلکہ ختم کرنا امریکہ اور اسرائیل کا نیا حد ف ہے۔ مسلمان اب بھی معلوم نہیں کس دنیا اور کن خیالوں میںہیں۔ حالانکہ اس تمام صورتحال میں تمام مسلمانوں اور پاکستان کے لیے ایک تلخ لیکن واضح پیغام ہے کہ مسلمان حکومتیں ذاتی مفادات کی بنا پر تقسیم ہو چکی ہیں اور متحدہ مسلم امہ نام کی کوئی چیز اب عملی طور پر موجود نہیں ہے۔
٭٭٭