آج سے صرف ڈیڑھ سو سال قبل تک امریکہ اور یورپی استعماری قوتوں کو صحت مند اور جفاکش مزدور درکار تھے۔ اس لئے جہاں ممکن ہوتا، اپنی کالونیوں یعنی زیرِ تسلط ایشیائی اور افریقی ممالک سے فیکٹریوں میں کام کرنے، کھیتوں کو آباد کرنے اور کوئلے اور دیگر معدنیات کی کانوں میں تکلیف دہ مشقت کے لئے افراد کو اپنے ممالک میں بلایا جاتا اور ان کی محنت پر اپنی صنعتی اور زرعی ترقی کی عمارت استوار کی جاتی۔ امریکہ کی چونکہ کوئی ایسی کالونی نہیں تھی، مگر اسے بھی مس سپی جیسے دریائوں کے ساتھ آباد کھیتوں میں کام کرنے کے لئے صحت مند افراد کی بہت ضرورت تھی، سو اس نے افریقہ سے سیاہ فام افراد کو پکڑ کر انہیں بدترین غلامی میں جکڑنے کے دھندے کو عروج بخشا۔ مختلف طریقوں سے افریقہ میں انسانوں کو اغوائ، جنگ اور پھندے لگا کر جانوروں کے غول کی طرح پکڑا جاتا، پھر انہیں ایک ایسے قید خانے میں رکھا جاتا جس کے صحن کے ایک جانب مرد، دوسری جانب عورتیں اور تیسری جانب بچے قید کئے جاتے۔ مردوں کو صحن میں نکال کر بری طرح پیٹا جاتا اور ان کی عورتیں اور بچے دیکھتے رہتے اور سوائے آنسو بہانے کے ان کو کسی چیز کا یارا نہ ہوتا۔ عورتوںکو باہر نکال کر ان پر جنسی تشدد کیا جاتا اور سامنے والے پنجرے میں کھڑے ان کے باپ، بھائی اور خاوند تلملاتے رہتے۔ اسی طرح بچے بھوک سے بلبلاتے، روتے، تڑپتے، لیکن والدین ان کی کسی بھی قسم کی مدد کو نہ آ سکتے۔ یوں کئی سال ان کو ایسے قید خانوں میں رکھ کر جب یہ یقین کر لیا جاتا کہ ان میں آزاد ہونے کی اب کوئی امید باقی نہیں رہی اور یہ اپنی غلامی پر سمجھوتہ کر چکے ہیں تو انہیں امریکہ لے جانے کے لئے بحری جہازوں پر سوار کیا جاتا۔ جس کیبن میں انہیں ٹھونس کر بھرا جاتا اس کی چھت زیادہ سے زیادہ تین فٹ بلند ہوتی۔ کئی ماہ کے سفر کے دوران، سو میں سے نو ے غلام راستے میں ہی دم توڑ جاتے، جنہیں سمندر کی لہروں کے سپرد کر دیا جاتا اور باقی دس فیصد جو سختیاں جھیل کر سخت جان ہو چکے ہوتے، انہیں سفید فام امریکیوں کے حوالے کیا جاتا۔ بازاروں میں منڈیاں لگتیں، اشتہار بٹتے اور گورے زمیندار انہیں خرید کر لے جاتے۔ تاریخی شواہد کے مطابق پہلا افریقی غلاموں کا جہاز 1502 میں اس دور کی ریاست ہسپانیولا جو آج کل ہیٹی اور ڈومینیکن رپبلک کے دو ممالک میں تقسیم ہے وہاں لنگرانداز ہوا۔ اس کے بعد 1518 میں جمیکا میں چار ہزار غلاموں کا قافلہ لایا گیا۔ سپین نے جب موجودہ امریکی ریاست جنوبی کیرولینا کو اپنے تسلط میں لیا تو وہ اپنے ساتھ غلاموں کو بھی لے گئے۔ ان غلاموں نے وہاں پر آباد ریڈ انڈین کے ساتھ مل کر سپین والوں کے خلاف بغاوت کر دی مگر بعد میں یہ بدنصیب امریکی گوروں کے قبضے میں آ گئے۔ صنعتی ترقی، مشینوں کی آمد اور عوامی بیداری کی تحریکوں کے نتیجے میں غلاموں کی تجارت پر سب سے پہلے برطانیہ نے 1807 میں پابندی لگائی۔ امریکہ میں ان کے خلاف ابراہم لنکن کی صدارت میں باقاعدہ شمالی اور جنوبی ریاستوں کے درمیان جنگ ہوئی جس میں غلامی کے خاتمے والی ریاستیں جیت گئیں۔ غلاموں کا آخری جہاز جس کا نام کلوٹلڈا تھا، وہ 1859 میں البامہ کے شہر موبل کی بندرگاہ پر لنگرانداز ہوا۔ لیکن ان تین صدیوں میں غلاموں کی تجارت سے اس قدر افریقی غلام امریکی اور یورپی ریاستوں میں آ چکے تھے کہ ان ملکوں کے کھیت آباد اور کارخانے چلتے رہے۔ اس کے بعد پوری ایک صدی برطانیہ، فرانس، ہالینڈ اور پرتگال جیسی طاقتوں کی افریقہ اور ایشیا کے ممالک پر تسلط کی صدی ہے، جہاں سے انہیں افرادی قوت بخوبی مل جاتی تھی۔ لیکن اب یہ لوگ نسبتا آزاد تھے، مگر معاشرے میں ان کا مقام اور مرتبہ ثانوی بلکہ محکوم والا تھا۔ جنگ ِ عظیم دوم کے بعد دنیا کے نقشے پر تین اہم تبدیلیاں رونما ہوئیں (1) بڑی طاقتوں نے اپنی زیر تسلط کالونیوں کو آزاد کرنا شروع کیا لیکن اس کے بدلے میں امریکہ نے ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کے ذریعے انہیں غلام بنا لیا (2) سوویت یونین کے ساتھ سرد جنگ کا آغاز ہوا اور مزدوروں کے انقلاب کے خوف سے یورپ میں مزدوروں کو مراعات ملنے لگیں اور (3) پاپولیشن کنٹرول کے لئے پہلے مانع حمل کنڈوم مارکیٹ میں آئے، پھر اس کے بعد جیسے ہی خواتین کے لئے مانع حمل گولی 1960 میں ایجاد ہوئی تو اس نے اخلاقیات، معاشیات اور خاندانی زندگی کا نقشہ بدل کر رکھ دیا۔ کنڈوم کا استعمال باہم رضامندی پر منحصر تھا لیکن گولی نے اس کا اختیار عورت کو دے دیا جو اسے خفیہ طور پر بھی استعمال کر سکتی تھی۔ اس کے بعد اخلاقیات کا جو بیڑا غرق ہونا تھا وہ تو ہوا لیکن اس کے نتیجے میں آبادی میں اس قدر کمی واقع ہو گئی کہ صرف تیس سال بعد ہی یورپ کے اٹھارہ ممالک آبادی کی شدید کمی کا ایسا شکار ہوئے کہ انہیں اپنی شہری سہولیات چلانے کے لئے لوگوں کو باہر سے منگوانا پڑ گیا۔ مگر اب نظامِ کار انتہائی جدید ہو چکا تھا۔ اس لئے اب جاہل، ان پڑھ اور جسمانی طور پر مضبوط لوگ نہیں چاہئے تھے، بلکہ پڑھے لکھے اور مہارتوں میں طاق ضرورت تھی۔ یہ صرف اسی صورت ممکن تھا اگر غریب ممالک کو ان کی اپنی زبانوں میں تعلیم کی بجائے انگریزی میں تعلیم دلوانے پر مجبور کیا جائے اور نصابِ تعلیم بھی ایسا مہیا کیا جائے جو صرف اور صرف مغربی معاشرے کے گیت گاتا ہو اور مغرب کو glorify کرتا یعنی اس کی توصیف و تعریف کرتا ہو۔ بھارت، سری لنکا، ملائیشیا، انڈونیشیا، فلپائن اور سنگا پور جیسے ممالک نے انگریزی کو ذریعہ تعلیم بنایا جس کے پیچھے چھپی خواہش یہ تھی کہ ہمارے نوجوانوں کو یورپ اور امریکہ کی سرزمین پر آسانی سے ملازمت مل جائے۔ یوں ان غریب ملکوں سے ذہین اور قابل لوگوں کا انخلا شروع ہوا اور ان کی محنت سے امریکہ اور یورپ ترقی کی منازل طے کرنے لگا۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ ان جدید پڑھے لکھے غلاموں کو پڑھانے لکھانے کا سارا خرچہ بھی غریب ممالک کے والدین کرتے ہیں مگر ان کی صلاحیتوں سے فائدہ یورپی ممالک اٹھاتے ہیں۔ یعنی غریب لوگ اپنے بچوں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کر کے جدید غلاموں کی منڈی میں کھڑا کرتے ہیں اور جب ان کی اچھی بولی لگ جاتی ہے تو یہ والدین خوش ہو جاتے ہیں۔ پاکستان میں اس وباء کا آغاز اسی کی دہائی میں ہوا جب شہر شہر انگلش میڈیم سکول کھلنے لگے ۔ یوں پاکستان کا دامن بھی قابل اور اہل لوگوں سے خالی ہونے لگا۔ برٹش کونسل کی رپورٹ کے مطابق 2023 میں ایک لاکھ سے زیادہ نوجوان او لیول کا امتحان دیں گے۔ اس کے آٹھ مضامین کی فیس دو لاکھ گیارہ ہزار روپے ہے۔ یعنی ایک او لیول امتحان پر 21 ارب روپے خرچ ہوں گے جو تقریبا سات کروڑ پچاس لاکھ ڈالر بنتے ہیں۔ ان کے علاوہ “A” لیول، IGCSE اور GCSE وغیرہ کے امتحانات علیحدہ ہیں۔ یہ ایک لاکھ طلبہ وہ ہیں جنہوں نے سکولوں میں دس سال ایسی کتب پڑھی ہیں جن میں مغرب کا ماحول نمایاں ہے،وہاں کی اخلاقیات، وہاں کی معاشرت کی باتیں اور کہانیاں موجود ہیں۔ اسی لئے ان بچوں کے ذہنوں میں ان کی منزلِ مقصود یورپ اور امریکہ میں ڈاکٹر، انجینئر یا کسی دوسرے شعبے میں نوکری کا حصول ہے۔ والدین ان کی مغرب میں مزید تعلیم پر بھی اربوں ڈالر خرچ کرتے ہیں۔ یہ تمام نوجوان جب اعلی تعلیم کے لئے یورپ یا امریکہ جاتے ہیں تو انہیں یوں لگتا ہے، جیسے وہ نصاب کی کتابوں میں دکھائی گئی خوابوں کی سرزمین میں آ گئے ہیں۔ یہ ایک لاکھ تو اشرافیہ کے بچے ہیں جو ملک چھوڑ گئے، لیکن اس کا دوسران نقصان یہ ہوا کہ نقالی میں گلی گلی اور شہر شہر میں دوسرے درجے کے انگلش میڈیم سکول کھل گئے جن میں آج کروڑوں بچے اپنے ماحول سے برگشتہ اور اپنی ثقافت سے دور کسی دوسرے کی زبان میں علم حاصل کر رہے ہوتے ہیں، ان نقال نوجوانوں کو یورپ اور امریکہ میں ملازمت تو ملتی نہیں مگر وہ اپنے ماحول کے لئے بھی اجنبی بن چکے ہوتے ہیں، یہ نوجوان ایسے جدید غلام ہیں جو منڈی میں آس لگائے بیٹھے ہوتے ہیں لیکن ان کی کوئی قیمت نہیں لگاتا۔
٭٭٭