”پاکستان ”یا پھر ”فوجستان”

0
122
مجیب ایس لودھی

پاکستانی سیاستدان جمہوریت کا کتنا ہی راگ الاپ لیں یہ حقیقت سب پر عیاں ہے کہ ایوب خان کے دور سے اب تک ملکی معاملات فوج ہی چلا رہی ہے ،اس حقیقت سے انکار بھی نہیں کیا جا سکتا ہے کہ بلاشبہ پاک فوج نے ملکی دفاع کے لیے بے شمار قربانیاں دی ہیں، 1965، 1971یا ا س کے علاوہ جب بھی ملک کو دفاع کی ضرورت پیش آئی ، پاک فوج نے اس میں بھرپور کردار اد ا کیا ہے ، دہشتگردوں کے ناپاک عزائم کو ناکام بنانے میں بھی فوج ہر اول دستہ کے طورپر سامنے آئی لیکن فوج کا سیاست میں عمل دخل اس کی اہمیت کو کم کر رہا ہے ۔ پاکستانیوں کو ہمیشہ یہ باور کرانے کی کوشش کی گئی ہے کہ فوج کے بغیر ملک کا نظام نہیں چل سکتا اور فوج کی وفاداری ، ملک سے محبت پر کسی کو انگلی اٹھانے کی اجازت نہیں ہے، دنیا کے کسی جمہوری ملک میں یہ جملہ سننے کو نہیں ملتا ہے کہ فوج اور حکومت ایک پیج پر ہیں، ایسا ہو ہی نہیں سکتا ہے ، فوج کا کام ملک کا دفاع کرنا ہے جبکہ حکومت کے تو معاملات ہی اور ہوتے ہیں یہ دونوں ادارے کیسے ایک پیج پر آ سکتے ہیں ۔اگر پاکستان میں فوج اتنی مقدم اور محب وطن ہے تو اُس کو ہی تمام معاملات سنبھالنے چاہئیں، ملک میں فوری مارشل لا نافذ کر دینا چاہئے اور پاکستان کا نام ”اسلامی جمہوریہ پاکستان ” سے ”فوجستان” رکھ دینا چاہئے ،پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے فیصل آباد جلسے میں یہ بات کی تھی کہ زرداری اور نواز شریف اپنی مرضی کا آرمی چیف لانا چاہتے ہیں ، اور یہ بھی کہا کہ اگر ان کی مرضی کا آرمی چیف نہیں آئے گا تو وہ ان سے باز پرس کرے گا، قانون کے مطابق کام کرانے کے لیے دبائو ڈالے گا ، اس میں فوج کی توہین کا کوئی عنصر شامل دکھائی نہیں دیتا ہے ،ایک طرف عمران خان کی حکومت کو سازش سے گرایا گیا ہے کیونکہ آرمی چیف اپنے عہدے میں توسیع چاہتے تھے اور عمران خان اس توسیع کے حق میں نہیں تھے جس کی وجہ سے ان کی حکومت کوگھر بھیج کر کرپٹ ٹولے کی حکومت کو لایا گیا جوکہ ”جی سر” کے علاوہ اور کوئی بات کرنا نہیں جانتی ہے ۔ عمران خان کے فوج کے متعلق بیان پر فوج میں شدید غم و غصے کا اظہار کیا جار ہا ہے ، آئی ایس پی آر نے اپنی پریس ریلیز میں بتایا کہ فوجی افسران میں اس بیان پر شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے۔فوج کے غصہ کرنے کی وجہ یہ ہے کہ کیونکہ فوج بیرکوں سے نکل کر ملک کے کونے کونے پر قابض ہو چکی ہے ، بزنس سیکٹر سے لے کر پبلک سیکٹر تک کوئی ادارہ فوجی دبائو اور اثرو رسوخ سے بالاتر نہیں ہے یعنی ایک حاضر سروس فوجی افسر دوران ڈیوٹی بھرپور مراعات حاصل کرتا ہے ، اس کی فیملی ، بیوی ، بچوں ، رہائش ، سفر کے تمام اخراجات عام افراد کے ٹیکس کے پیسوں سے پورے کیے جاتے ہیں، پرتعیش زندگی گزارنے کے بعد جب ریٹائرمنٹ کا وقت آتا ہے تو فوجی افسران کو ڈھیروں پیسہ، زمینیں دی جاتی ہیں،اور ریٹائرمنٹ کے بعد ریٹائر فوجی افسران کو پبلک ، بزنس سیکٹر کے بڑے بڑے عہدوں پر بٹھا دیا جاتا ہے ، یعنی سرکاری لوٹ مار کے بعد پبلک لوٹ مار کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے، کسی کو کچھ پوچھنے کی اجازت نہیں ، کوئی انگلی نہیں اٹھا سکتا ہے ، آخر یہ سب کب تک چلے گا۔ توہین فوج پر نوٹس، توہین عدالت پر نوٹس ، توہین وزیراعظم پر نوٹس کیا کبھی پاکستان میں یہ وقت آئے گا کہ پاکستانی قوم کی توہین پر عدالت نوٹس لے، عوام کی اس ملک میں کوئی عزت و قدرو قیمت نہیں ہے ، انہیں صرف بھیڑ ، بکریوں کی طرح ڈنڈے سے ہانکنے کے لیے رکھا گیا ہے، اسی لیے تو اس ملک میں ہر پانچ سال بعد برائے نام الیکشن کرائے جاتے ہیں ، عوام کو تماشے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے ، بیک ڈور پالیسی میکر حکومت سازی کرتے ہیں، اور اپنے متعین کردہ حکمرانوں کو اقتدار میں لاتے ہیں، عوام بریانی کی پلیٹوں، خوشامد پارٹیوں سے زاتوں، برادریوں کی سپورٹ میں ووٹ کاسٹ کر کے گھر وں کو لوٹ جاتے ہیں ۔ ایک طرف حکمرانوں ، ایلیٹ کلاس، بیوروکریٹس، فوجی افسران کی شاہ خرچیاں، عیاش زندگی ہے تو دوسری طرف متوسط طبقہ کے بچے پائی پائی جوڑ کر تعلیم حاصل کرنے کے بعد ملازمتوں کے لیے دکھے کھاتے ہیں، اور کچھ محب وطن فوج میں جانے کی کوشش کرتے ہیں تو یہ کہہ کر فارغ کر دیئے جاتے ہیں کہ ان کا کوئی رشتہ دار پہلے فوج میں نہیں ہے اس لیے فوج میں ان کے لیے کوئی نوکری، کوئی جگہ نہیں ہے، اور بچے اپنی قابلیت کی بنیاد پر فوج میں چلے بھی جاتے ہیں تو ان کی تنزلی ہوتی ہے کیونکہ وہ ایک فوجی افسر کے بیٹے کے ساتھ مقابلے میں ہوتے ہیں جس کو ترقی کے تمام مراحل میں ترجیح اور فوقیت دی جاتی ہے۔ملکی معاملات جیسے بھی ہوں ایک بات ہمیں سمجھ لینی چاہئے کہ دنیا میں وہ قومیں ہی ترقی کرتی ہیں جہاں جمہوریت مضبوط ہوتی ہے ، ہمسایہ ملک چین، ایران یا بھارت کے آرمی چیف کا نام کتنے لوگوں کو معلوم ہے، کوئی ان کے بارے میں نہیں جانتا ہے کیونکہ حکومتی معاملات میں فوج کا کردار صفر ہوتا ہے لیکن پاکستان میں الٹی گنگا بہہ رہی ہے جس کا رخ درست کرنے کیلئے نہ جانے کتنے اور سال درکار ہیں ۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here