ہم امریکہ میں رہتے ہیں اور ان میں سے ہیں جن کا شمار مڈل کلاس امریکنز میں ہوتا ہے50سال ہوئے ہم اسی ماہ کی اسی تاریخ میں نیویارک آئے تھے یہ وہ زمانہ تھا جب امریکہ آنے کا کوئی تصور نہیں کرتا تھا یعنی1972کی بات ہے لوگ لندن جاتے تھے تعلیم کے لئے اور پھر سعودی عربیہ، دبئی، ابوظہبی میں مواقع ملنے لگے، بھٹو صاحب نے ایک آسانی پیدا کی کہ ہر پاکستانی کو پاسپورٹ ان کا بنیادی حق بنا دیا مطلب جو پاسپورٹ رشوت دے کر دھکے کھا کر بنتا تھا اور بیورو کریسی کی چالوں کا شکار تھا اس سے نجات ملی بھٹوصاحب کی عقلمندی تھی کہ پاکستان کی آبادی جس تیزی سے بڑھ رہی ہے مواقع کم ہو رہے ہیں اور ایسا کرنے سے زرمبادلہ بھی آنے لگا۔ان کے دور کا یہ بھی ایک بڑا کارنامہ ہے دوسرے محاذ پر انہوں نے اپنے شروع کے دوستوں پر قدغن لگایا۔جن میں معراج محمد خان تھے اور حیات علی خان شیرپائو، دونوں کا صفایا کرایا ایک پر بجلی گرا کر اور دوسرے کے قلعہ میں بند کرکے ناخن کھنچوانے پر معراج محمد خان ایک مقناطیسی شخصیت تھے وہ طارق روڈ سے نکلنے والی گلی کے آخر میں رہائش پذیر تھے ہم بھی کرائے کے فلیٹ میں قریب میں رہتے تھے۔ایک دن یونس شرد وہاں آئے تو ہماری نظر پڑی کہنے لگے ائو میں تمہیں ایک عظیم لیڈر سے ملوائوں ہم انکے سودہ سے گھر کی سادہ سی بیٹھک میں جا بیٹھے۔چائے کا اہتمام ہوا اور باتیں ہوتی رہیں آنے والے وقت سے وہ اچھی اُمیدیں نہیں رکھتے تھے۔بھٹو کے متعلق کوئی بات نہیں کی یہ انکی اعلیٰ ظرفی تھی ہمیں ان کی نااُمیدی پر بڑا قلق ہوا۔انکا کہنا تھا آنے والے لوگ پیسے اور طاقت کے لالچ میں دنیا کو معاشی طور پر تباہ کرینگے۔پاکستان میں اقربا پر تھی کی سیاست اور میرٹ کا قتل عام ہوگا۔ اور یہ عروج سندھ میں زیادہ ہوگا۔اور دنیا اس کی لپیٹ میں آئیگی کھانے پینے کی اشیاء نہیں ملینگی اور کیپٹلزم دنیا کا نقشہ بگاڑ کے مصنوعی قلت پیدا کردیگا۔یہ وہ وقت تھا جب ہماری سوجھ بوجھ اتنی نہ تھی۔میں اور شرر امریکہ آگئے اور دھیرے دھیرے بات سمجھ میں آنے لگی اور آج کہنا پڑتا ہے کہ بڑے لیڈروں کی ویژن بڑی ہوتی ہے یہاں لکھتے چلیں کہ ابولکلام آزاد بھی بڑے دانشمند تھے ہم نہیں کہہ سکتے کہ یہ بڑے لیڈر کیا ہوتے ہیں لیکن یہ سقراط اور رومی کے پرتو ہوتے ہیں۔اور آج ہم جس تیزی سے دنیا بھر میں حالات بگڑتے دیکھ رہے ہیں اسENDکیا ہوگا کہ امریکہ جیسے بڑے طاقت ور ملک میں ہر طرح کا بحران اور اس کی وہ ہی وجہ ہے جو معراج محمد خان نے کہا تھا۔
کل ہی کی بات ہے انڈیا نہ ریاست میں وہاں کے گورنر اور بائیڈین انتظامیہ میں وہائٹ ہائوس کی پریس سیکرٹری جین پیئری کی پریس کانفرنس دیکھی کہ کس طرح بچوں کا ملک فارمولہSIMILACدستیاب نہیں اور بائیڈین انتظامیہ نے سوئنرر لینڈ سے نیسلےNESTLEسے فوری طور پر ہوائی جہاز کے ذریعے فارمولے کی مانگ کی ہے جو جرمنی سے ہوتی ہوئی یہاں پہنچی ہے اور ایک دو دن میں ٹارگٹ وال مارٹ اور ڈرگ اسٹورز میں گی کہ یہاں عورتوں نے بچوں کو دودھ پلانا بند کردیا ہے یا پھر وہ اپنے پیشے میں معروف ایسا نہیں کرسکتیں یہ بات ہمیں اب پتہ چلی کہ کھانا پینا تو بوبر کے ذریعہ ٹیک آئوٹ ہو رہا ہے اور اب بچوں کے استعمال کے فارمولےSIMILACکی ڈیمانڈ بھی بڑھ گئی ہے۔اسکے پیچھے حکومت کی ناقص کارکردگی ہے کہ دہائیوں سے یہ فارمولہ ایبٹABBOTکمپنی بنا رہی ہے۔اور دو تین دوسری کمپنیاں بھی ہیں مگر80فیصدی انکی موناپولی ہے پچھلے دنوں چار بچوں کو فارمولا پینے سے بیماری ہوگئی تو تحقیقات کے لئے فیکٹری نے آپریشن بند کردیا کہ حالات ایسے خراب ہوئے کہ بائیڈین صاحب نے باہر سے انتظام کروا دیا۔اب کیا حالات ہونگے کچھ نہیں کہا جاسکتا کہ ریپبلکن کا کہنا ہے کہ بہت دیر کی مہربان آتے آتے۔یہ ہی حال آئل کمپنیوں کا ہے کہ وہ ضرورت سے کہیں زیادہ منافع بنا رہی ہے جس کی کوئی روک تھام تو الگ صدر صاحب وارننگ بھی نہیں دے رہے الزام روس پر لگا رہے ہیں ہم نے لکھ دیا تھا روس پر پابندی کے نتیجے میں امریکی صارفین کی جیبیں خالی ہوجائینگی۔جو ہو رہی ہیں اور مہنگائی کا سونامی دنیا میں ہر ملک کے علاوہ کناڈا، برطانیہ اور امریکہ کو بری طرح لپیٹ میں لے چکا ہے لکھتے چلیں جب خام آئل94ڈالر بیرل تھا تو ایک گیلن تین ڈالر اور42سینٹ کا تھا اور صرف تین ماہ سے کم عرصہ میں بیرل104ڈالر کا ہے۔اور پیٹرول کی قیمت5ڈالر گیلن پر ہے اور بڑھ رہی ہے جب کہ انتظامیہ کہہ رہی ہے چار ڈالر پچاس سینٹ ہے قیمتیں کب کم ہونگی مہنگائی سر چڑھ کر بول رہی ہے۔کچھ نہیں کہا جاسکتا پنڈتوں کاکہنا ہے کساد بازاری کا آغاز ہوچکا ہے لیکن ان سب باتوں کے باوجود بڑی کارپوریشنز کا منافع دیکھ کر آپ حیران رہ جائینگے اور کہینگے ڈاکو یہاں بھی آگئے۔جب ہم ایسی بات کسی امریکن سے کرتے ہیں تو اس کا جواب ہوتا ہے یہ سرمایہ دارانہ(CAPITALISM)نظام ہے۔مطلب یہ کہ آپ کا مستقبل دائو پر ہے اور آنے والے بچوں کا مستقبل رہن رکھا جاچکا ہے اور یہاں کا سیاستدان چونکہ لابیسٹ کے ہاتھوں میں ہے کچھ نہیں ہو سکتا۔
مہنگائی کی بات ہے تو بتاتے چلیں سب سے زیادہ مہنگائی کا شکار انڈیا ہے جہاں15فیصدی سے زیادہ مہنگائی ہے۔مشکل غریب ملکوں کی نہیں امیر ملکوں کی ہے یورپ اور امریکہ جہاں عوام بڑے سکون سے خوشحال زندگی گزار رہے تھے کہ بڑی کارپوریشنز نے افراتفری مچا دی اور وہ گورنمنٹ کو ایک فیصد ٹیکس دے کر اپنا منافع اربوں کھربوں میں کر رہی ہیں بائیڈین انتظامیہ نے ان سب کو چھوٹ دے دی ہے کہ وہ بے چارگی کی تصویر بنے جو ان سے کہا جاتا ہے کرلیتے ہیں۔ضعیف العمری بھی ہے اور نائب صدر کے روپ میں بھی ایک ناتجربہ کار خاتون ہے۔اصل میں بائیڈین یا دوسرے صدور کچھ نہیں کرتے ان کے اردگرد جو لوگ ہیں وہ ہی کرتے ہیں۔اور وہ کچھ اچھا نہیں کرنا چاہتے اس ملک کی جڑوں کو کمزور کرچکے ہیں کہ بڑی آسانی سے محنتی امریکن کے ڈالرز دوسرے ملکوں کی امداد میں پھینک رہے ہیں جو امریکہ سے مخلص نہیں یاد آیا۔پچھلے ہفتے ایک این جی او کے تحت پاکستانی امریکن کا ایک وفد اسرائیل خیرسگالی کے جذبے کے تحت لے جایا گیا ہے۔تعلقات استوار کرنے کی غض سے یہ ساری خرافات، تبدیلیاں، افراتفری ایک پلان کے تحت ہو رہی ہیں اور یقیناً پاکستان میں جو کچھ ہوا ہے باجوہ صاحب کے ذریعے وہ کچھ اچھا نہیں ہے اور آپ یقین کرلیں ابھی نہیں تو کبھی نہیں آپ دیکھینگے ملک کے ٹکڑے ہونگے اگر عمران خان ناکام رہا آنے میں اور آگیا تو اس کے لئے مشکلات کا پہاڑ کھڑا ہوگا ہمیں محبوب خان کی فلم مدد انڈیا یاد آتی ہے یا معراج محمد خان کی باتیں ملک اس وقت جنرلوں کے قبضے میں ہے جو وفادار نہیں۔
٭٭٭