پاکستان میں آرمی چیف کی تعیناتی ہمیشہ سے ایک حساس اور اہمیت کا حامل فیصلہ تصور کیا جاتا ہے، شاید پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے جہاں آرمی چیف کی تعیناتی سب سے بڑی بریکنگ نیوز بن کر سامنے آتی ہے اور وزیراعظم اس تعیناتی کے حوالے سے عمل کو بھی انتہائی خفیہ رکھتا ہے، سابق وزیراعظم نواز شریف کے حوالے سے مشہور ہے کہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی تعیناتی کے موقع پر وہ خود ایوان صدر گئے اور فائل پر اس وقت کے صدر پاکستان ممنون حسین سے دستخط لیے۔پاکستان کے سابق وزیراعظم عمران خان کی جانب سے بھی آرمی چیف کی تعیناتی کے حوالے سے فیصل آباد جلسے میں دیا گیا بیان آجکل خوب خبروں کی زد میں ہے، خصوصا ڈی جی آئی ایس پی آر کے بیان نے سونے پر سہاگے کا کام کرتے ہوئے اس کو مزید اہم موضوع بنا دیا ہے، جس کے بعد سیلاب زدگان کی مصیبتیں اور اس حوالے سے کی جانے والی امدادی کاروائیاں بے حسی کے سات پردوں کے پیچھے چھپ گئی ہیں۔غرض کہ پوری دنیا کو اس وقت پاکستان میں سیلاب زدگان کی پریشانیوں کے حوالے سے فکر مندی ہے وہاں ہماری سیاسی قیادت آرمی چیف کی تعیناتی کا سردرد لیے بیٹھی ہے۔جب کبھی پاکستان کی عسکری قیادت کی جانب سے یہ دعوی کیا جاتا ہے کہ ان کا سیاست سے کوئی لینا دینا نہیں، تو ایک بار آرمی چیف کی تعیناتی کے حوالے سے پیدا ہونے والے واقعات کو ذہن میں رکھ کر سوچیں کہ پھر اتنا ہنگامہ برپا کس لیے ہوتا ہے۔یہ سب کچھ ہوتا ہوا دیکھ کر میرا تو اس مفروضے پر ایمان اور پختہ ہو جاتا ہے کہ پاکستان میں حکومتی معاملات کوئی ایک سیاسی جماعت بلاتی ہے مگر اس پوری حکومتی سیاسی جماعت کو صرف ایک ادارہ چلاتا ہے۔ بات اس حد تک بڑھ چکی ہے کہ آرمی چیف کو پاکستان میں احتساب کرنے کی ذمہ داری بھی سونپی جاچکی ہے۔شاید دنیا کے کسی اور ملک میں ہمیں ایسی مثال دیکھنے کو ملے جہاں پر آرمی چیف کی تعیناتی ملک کا سب سے اہم مسئلہ ہو، مگر جہاں حکومتوں کو اپنا استحکام آرمی چیف کی تعیناتی میں نظر آتا ہوں وہاں پھر بھول جائے گا کبھی سیاسی سوچ پروان چڑھے گی اور وہ ملک جمہوری کہلایا جانے کے لائق ہو، کہتے ہوئے بہت افسوس ہو رہا ہے مگر کیا کریں کہ حقیقت اب یہی ہے پاکستان میں وزیراعظم ملک کا سربراہ نہیں بلکہ ملک کے اصل حکمران یا عسکری بادشاہ آرمی چیف کی گزرگاہ ہے۔
٭٭٭