تاریخ اس حقیقت کی شاہد ہے کہ وہی قومیں زندہ رہتی ہیں جن میں جذبۂ حُب الوطنی ، قومیت، وحدت اور رواداری کا اظہار عمل سے کیا جائے اور تمام تر ذاتی مفادات کو چھوڑ کر وطن کی بہتری و استقامت کا حصہ بن جائیں۔ ایسی ہی ایک مثال گزشتہ دہائیوں سے انتشار، جنگوں اور نامساعد حالات سے دوچار ملک افغانستان کے حوالے سے گزشتہ دنوں سامنے آئی، امریکہ و روس کی محاذ آرائی، بعد ازاں 9/11 کے بہانے سے دو عشروں سے امریکہ کے غاصبانہ قبضے کے سبب بدترین صورتحال و سیاسی، معاشی اور عدم استحکام سے دوچار افغان طالبان حکومت نے جب اقتدار سنبھالا تو ساری دنیا افغانستان اور طالبان حکومت کے مستقبل اور حالات کے حوالے سے خدشات اور نا امیدی کا اظہار کر رہی تھی اور حوالہ کے طور پر خواتین کے حقوق، لڑکیوں پر تعلیمی پابندیوں، انسانی حقوق کی پامالی، اور قبائلی فقہی و سیاسی تقسیم کیساتھ اندرونی خلفشار کی بنیاد بنا رہی تھی لیکن گزشتہ ہفتہ جو صورتحال سامنے آئی ہے اس نے یہ واضح کر دیا ہے کہ افغانی معاشرت میں قومی احساس و شعور مذکورہ بالا تمام سختیوں، قدغنوں کے باوجود پاکستانی اشرافیہ، سیاستدانوں، لٹیروں اور خود غرضوں سے زیادہ ہے۔ تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ طالبان حکومت نے افغانستان چھوڑ کر جانے والے اپنے تمام مخالفین سیاستدانوں، سابقہ حکمرانوں، سرداروں وغیرہ کیلئے عام معافی کا اعلان کرتے ہوئے انہیں واپس آنے اور افغان عوام کی لُوٹی ہوئی دولت واپس کرنے کو کہا تو سابقہ صدر کے خاندان سمیت تقریباً تمام ہی حکومتی مخالفین و منحرفین نے واپس آنے سے تو گریز کیا لیکن اربوں ڈالر کی رقم قومی خزانے میں لوٹا دی۔ یہ عمل یقیناً وطن سے وفاداری، قومیت اور حب الوطنی کی واضح و روشن مثال ہے اور وطن کی خوشحالی و استحکام کیلئے اہم اقدام، جس کے الزامات ملک و عوام کیلئے نہایت مفید ہو سکتے ہیں۔ اسی حوالے سے اگر وطن عزیز پاکستان کے حالات پر نظر ڈالیں تو معاملات قطعی برعکس نظر آتے ہیں، گزشتہ کئی برسوں سے ملک کی دولت لوٹنے، بیرون ممالک میں اپنی جائیدادوں، کاروبار اور اولادوں کو سیٹل کرنے والے سیاسی نوسر باز باری باری اقتدار کے مزے بھی لُوٹ رہے ہیں اور ہوس زر میں لُوٹ مار بھی کر رہے ہیں۔ جرم ثابت ہونے اور سزائوں و نا اہلی کے باوجود ”ہل منمزید” کی تصویر بنے ہیں۔ بے شرمی اور ڈھٹائی کا عالم یہ ہے کہ تمام تر لُوٹ مار کیساتھ اب بھی اقتدار کے تسلسل اور حصول کیلئے ہرجائز و ناجائز حربہ، طریقہ آزمانے پر کمر بستہ ہیں، خواہ آئین، قانون اور انتخابی قواعد و ضوابط کے منافی ہی کیوں نہ ہوں۔ تازہ ترین حربہ یہ ہے کہ حکومت و پارلیمان کی تکمیل و تحلیل کے بعد ن لیگ کے مرکزی سیکرٹری خزانہ، موجودہ سینیٹر اور وفاقی وزیر خزانہ ہونے کے ساتھ نوازشریف کے سمدھی اسحاق ڈار کو نگران وزیرا عظم بنانے کا شوشہ چھوڑا گیا ہے۔ وجہ تسمیہ یہ دی جا رہی ہے کہ آئی ایم ایف کے ایجنڈے پر عملدرآمد اور دوسری قسط کے حصول کیلئے اسحاق ڈار کی نامزدگی ضروری ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ملک میں غیر سیاسی، نیوٹرل معاشی ماہرین یا ٹیکنو کریٹس کا کال پڑا ہوا ہے کہ اسحاق ڈار کے سوا کسی کو نگران وزیراعظم نہیں۔ بنایا جا سکتا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ اس اقدام کے پس پُشت حکمرانوں کا وہ مشن ہے جس کا خدشہ ہم نے اپنے گزشتہ کالم میں کیا تھا کہ الیکشن 60 یا 90 دن میں ہوتے نظر نہیں آتے اور بہت جلد بھی ہوئے تو 2024ء کی پہلی سہ ماہی میں ہونگے۔ اصل بات یہ ہے کہ حکمراں ٹولے کی ن لیگ کو یقین کی حد تک اندازہ ہے کہ نومبر میں بھی اگر الیکشن ہوئے تو اس کی کامیابی مشکل ہی نہیں ناممکنات میں ہے۔ ایک جانب تو تمام تر سازشوں، بے بنیادوں مقدمات اور منفی پروپیگنڈہ کے باوجود عمران خان کی مقبولیت و عوامی حمایت اور دوسری جانب 16 ماہ کی حکومتی منفی کارکردگی حلق کی ہڈی بن چکے ہیں جو نہ اُگلتے بن رہی ہے نہ نگلتے، اس لئے اسحاق ڈار کو نگران وزیراعظم بنا کر پلان B پر عمل کرتے ہوئے دو سال تک نگران حکومت کے ذریعہ اقتدار اور لُوٹ مار کا سلسلہ جاری رکھنے کا منصوبہ بنایا گیا ہے کہ عمران خان کو سیاسی منظر نامے سے خارج کرنے اور نواز شریف کو سیاسی ایرینا میں لانے کا مقصد حاصل کیا جائے۔
اسحاق ڈار کو نگراں وزیراعظم بنانے کے ارادے کی پیپلزپارٹی، جے یو آئی اور دیگر اتحادی بھی مخالفت کر رہے ہیں اور مبصرین بھی خلاف نظر آئے ہیں۔ کسی بھی سیاسی جماعت کے عہدیدار، ہمدرد یا سپورٹر کا نگران حکومت کا سربراہ ہونا سیاسی یا آئینی طور پر غلط نہ سہی لیکن اخلاقی طور پر نامناسب اور جانبدارانہ کردار کا مظہر ہی ہوتا ہے، آئین میں نہ سہی پیپلزپارٹی اور ن لیگ کے درمیان ہونے چارٹر آف ڈیموکریسی میں نگران وزیراعظم کیلئے نیوٹرل کا لفظ واضح طور پر استعمال کیا گیا ہے۔ اپنے منصوبے پر عمل کرنے کیلئے حکمران جماعت ن لیگ کا الیکشن ایکٹ 2017ء کی شق 230 میں نگران حکومت و وزیراعظم کے اختیارات میں اضافے کا مقصد بھی اسی لئے ہے کہ نگران حکومت بھی نا اہل و کرپٹ ن لیگیوں کے ایجنڈے و مقاصد پر ہی عمل پیرا ہے۔ ان ہوس کے پجاریوں کو اس امر کا پورا یقین ہے کہ اگر عمران اور پی ٹی آئی کا نام اور بلے کا نشان بیلٹ پیپر پر رہے تو پنجاب جسے یہ اپنی کامیابی کا گڑھ سمجھتے ہیں، ان کے ہاتھوں سے نکل جائیگا اور ان کی سیاست وفاق تو کیا پنجاب اور کے پی میں بھی ختم ہو جائیگی۔ اسی خوف کے سبب یہ عمران کیخلاف ہر وہ ہتھکنڈہ اپنا رہے ہیں جو کپتان کی نا اہلی یا طویل سزا کا باعث بنے۔ سوموار کو عمران خان سپریم کورٹ، نیب و سیشن عدالتوں میں پیش ہوا۔ اس دوران جو کچھ ہوا، جس طرح عمران خان کے شیدائی جمع ہوئے اور اس سے محبت کا اظہار کیا اس کی تفصیل تو قارئین جان ہی چکے ہیں لیکن اس کے رد عمل میں عطاء تارڑ اور ن لیگ کے پیڈ صحافی طیب بلوچ کے غیر مہذبانہ عمران مخالف روئیے اور گالم گلوچ نے نہ صرف عدالت کے وقار کو مجروح کیا بلکہ محاذ آرائی کی کیفیت پیدا ہوئی حتیٰ کہ جج اور عمران کے وکیل کے درمیان شٹ اپ، یو شٹ تک نوبت آئی۔ عطاء تارڑ کو عدالت سے نکالا گیا، طیب بلوچ کو ساری میڈیا برادری اور عوام تُھو تُھو کر رہے ہیں۔ بہرحال ن لیگ اپنی حرکات سے با زنہیں آرہی ہے۔ ہماری اس تحریر کے لکھے جانے تک الیکشن کمیشن نے عمران خان کی گرفتاری کے احکامات جاری کر دیئے ہیں اور سخت کشیدگی کی صورت ہے۔ حالات کے تناظر میں یہ شعر یاد آرہا ہے!!!
اوج پر ہے کمال بے ہنری
با کمالوں میں گھِر گیا ہوں میں
وطن عزیز اس وقت جس بے چینی، بے یقینی اور عدم استحکام کا شکار ہے اور لوگوں کا اعتبار پر ادارے، ہر شعبے، ہر رہنما و جماعت سے اٹھتا جا رہا ہے، ہماری تمام ذمہ داروں سے مؤدبانۂ التماس ہے کہ خدا کے واسطے وطن کی سلامتی و امن و سکون کیلئے اپنے رویوں اور کردار پر نظر ثانی کریں اور اپنے مفادات و اغراض سے ہٹ کر ملکی مفاد کیلئے سوچیں، کم از کم افغان اشرافیہ کی طرح ملک کی لوٹی ہوئی ہی رقم واپس کر کے وطن سے وفاداری کا ہی ثبوت دیں۔ جمہور اور جمہوریت پر عمل کر لیں، ہمیں خبر ہے کہ ہماری درخواست محض صدا البصحرہ ہی ہوگی۔
٭٭٭