”شرافت کی سزا”

0
12
Dr-sakhawat-hussain-sindralvi
ڈاکٹر سخاوت حسین سندرالوی

آج احساس ہو رہا ہے کہ دنیا میں جھوٹے ، فراڈی، دغاباز، متعصب، نالائق، شعبدہ باز، احسان فراموش ، محسن کش ، مکار ، عیار، بے شرم ، بے حیا، سوداگر، لٹیرے، بدکردار، بدگفتار، بد اخلاق، بد زبان، بے دید، بے مروت، قاتل ، ڈاکو، چور، اچکے، حرام خور، قرض خور، بھتہ خور، جعلساز، افسانہ گر، کذاب، قزاق، چغل خور، نمام ، رشوت خور، بدعنوان، نامراد، بے ادب، بدطینت،بدفطرت، قانون شکن ، عاقبت نااندیش، دین فروش، ضمیر فروش،ننگ وطن ، ننگ دین، بدمعاش، اور بدتمیز، کامیاب و کامران ہیں۔
جبکہ سچے ، نیک ، متدین، لائق، باحیا، باکردار، باگفتار، باضمیر، باعفت، حلال خور، قرض خواہ،۔ بامراد، با ادب ، نیک طینت ، پابند قانون، وضع دار، باتہذیب، اور شریف ذلیل و رسوا ہیں، زمانہ بدل گیا ہے، شرافت کو بزدلی شمار کیا جاتا ہے ، صداقت و امانت کو مجبوری سمجھا جا رہا ہے، عفت کو قدامت پسندی سمجھا جاتاہے، وضعداری کو تصنع کے زمرے میں ڈالا جاتا ہے، حلال خوری کو دقیانوسیت سے تعبیر کیا جاتا ہے۔سیاسی منصب ہوں یا مذہبی تقریاں ہوں جلسے ہوں یا محافل و مجالس، فرحت و سرور ہو یا افسوس و تعزیت ایک شئے میں مفاد پرستی عروج ہر ہے، ہر ایک شئے میں سودے بازی ہو رہی ہے۔مجالس جلسے بننے لگی ہیں۔جلسے جلوسوں کی شکل اختیار کر رہے ہیں۔جتنا کوئی نا لائق ہے اتنا ہی اسے بڑا عہدہ دیا جاتا ہے ، جتنا کوئی نااہل ہے اتنا ہی اسے سراہا جاتا ہے، جتنا کوئی منہ پھٹ ہے اتنی ہی اسے عزت ملتی ہے۔شریف و غیور منہ چھپانے پر مجبور ہیں۔بدمعاش اور بے غیرت دادا گیری کرتے دکھائی دیتے ہیں۔مذہبی اداروں کو سیاسی اکھاڑے بنا دیا گیا ہے۔سیاسی اکھاڑوں کو مذہب کی بیساکھی دی جا رہی ہے۔ ان پڑھوں کو پلیٹ فارم کی کمی نہیں ہے۔جبکہ پڑھے لکھے اپنے آپ کو متعارف تک نہیں کراپا رہے ہیں۔سیاست و مذہب سماج و معاشرت قیادت سیادت سب میں تصنع ، دکھلاوے اور ریاکاری کا عنصر عام ہو گیا ہے، جنھیں پروفیسر کہا جا رہا ہے وہ خود نہیں پڑھے جنھیں علامہ لکھا جا رہا ہے انہیں علامہ کے معانی نہیں معلوم ہیں۔جنھیں پیر لکھا کہا جا رہا ہے وہ مرید ہونے کے اہل نہیں ہیں۔بدمعاشوں کو سزا تو قیامت میں ملے گی ۔ شریفوں کو سزا یہاں ہی دی جا رہی ہے۔جو دینی خدمات کی اجرت طے نہیں کرتے انھیں ناکام سمجھا جاتا ہے، جوقرآن و حدیث کے پروموٹر ہیں انکی مخالفت کی جا رہی ہے۔جو افسانہ گر ہیں انھیں ویلکم کہا جاتا ہے،۔بہروپیوں کے وارے نیارے ہیں جبکہ حقیقی مستحقین کو محروم وسائل کر دیا گیا ہے۔ عبادت میں ریاکاری تو پہلے ہی تھی اب رہتی سہتی کسر ہی نکل گئی ہے۔اب عبادت میں مقابلہ بازی کا دور دورا ہے۔ شرافت کی سزا ان والدین کو بھی مل رہی ہے، جنھوں نے رنج دکھ الم سہہ کر اپنی اولاد کو پالا وہ بلا د مغرب کی ناجائز مراعات کا فائدہ اٹھا کر انھیں سزا دے رہی ہے۔ ماں و باپ نے اولاد پالنے کیلئے خود کو بیماریاں لگائیں ، روگ لگائے۔ وقت سے پہلے بوڑھے ہو ئے مگر اولادیں تقویت پا کر انھیں بالکل فراموش کر گئیں۔شرافت کی سزا ان بہن بھائیوں کو بھی دی جا رہی ہے جو شرم سے بھیک بھی نہیں مانگ سکتے اور ان کے نودو لتیے بھائی بہن انھیں صدقہ تک دینے کے روادار نہیں ہیں۔شرافت کی سزا ان متولیان مساجد و مراکز کو بھی مل رہی ہے جنھوں نے اپنی پونجی داو پر لگا دی اور کمیونٹی سے سوائے تنقید کے کچھ نہیں پا رہے۔ ایسے دو نمبر کے انچارج بھی کم نہیں جو شریف کمیونٹی کو ان کے ڈونیشن کی سزا ان کو سروس سے محرومی سے دیتے ہیں۔میں نے اپنی ساری زندگی میں یہ محسوس کیا ہے کہ وہی لوگ کامیاب ہیں جو لابینگ کریں۔جو پارٹی بازی کریں۔جو لیگ پلنگ کریںجو لوگوں کی مجبوریوں سے ناجائز فائدہ اٹھائیں۔
قم المقدس میں اعلی ترین تعلیم کے حصول اور فارسی زبان میں پڑھانے والے مشہور استاد کا اعزاز حاصل کرنے کے بعد، عربی ، فارسی، اردو، انگلش ،پنجابی و سرائیگی میں مہارت کاملہ حاصل کرنے کے بعد،حوزہ علمیہ اور یونیورسٹی کی آخری ڈگریوں کے حصول کے بعد ، 50 سال بے لوث خدمت دین کے بعد کبھی یہ سوچا نہ تھا کہ اپنی باقی ماندہ زندگی میں خدمت دین اور خطابت کے لئے مٹھی بھر کذابوں کی طرف سے کردار کشی کی نظر ہوں گے۔ کیونکہ ہم نے اعلائے کلمہ حق کیا جو اس دور میں اِک جرم ہے۔ میرٹ پر خود کو رکھا ، ہر اعتبار سے دین و دیانت کو محفوظ رکھا، یہی جرم شمار ہوا میری اس تحریر کا ہدف یہ ہے کہ جو شرفا کو ذلیل کر رہے ہیں وہ ان کی اپنی بربادی کا پیش خیمہ ہو گا، ایسے افراد کم نہیں جنھیں شرفا کی تذلیل کی سزا مل چکی ہے یا اپنے منطقی انجام کو پہنچ چکے یعنی شہر خاموشاں کو بسا چکے یا کبھی بیماریوں میں مبتلا ہوچکے یا ان کی اولادیں برباد ہو چکیں۔
ایسے شر پسند عناصر اب آپ کو اداروں میں نظر نہیں آتے ہیں اس لئے کہ وہ منہ دکھانے کے قابل نہیں ہیں۔وہ صرف سوشل میڈیا پر جعلی آئی ڈیز سے دین کی اینٹ سے اینٹ بجانے اور دینداروں کو ناموس کی گالیاں دینے میں مشغول ہیں۔اس تحریر کو قارئین فوٹو کاپی کر کے تقسیم کریں۔ای میل بھی کریں ۔سوشل میڈیا پر شئیر کریں۔ ہو سکتا ہے شرفا کو سزا دینے والے نودولتیوں ، نامرادوں اور پیشہ وروں کو نصیحت ہو جائے۔ آج فجر کے بعد دو گھنٹے لگا کر یہ سطور صرف شرعی ذمہ داری سمجھ کر تحریر کی ہیں، اللہ مجھے اور قارئین کو شر اعدا و حاسدین سے محفوظ رکھے۔آمین
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here