آج امریکہ میں ادائیگی شکر کا سالانہ تہوار منایا جا رہا ہے۔ ہر سال اس موقع پر لوگ اپنے مشکور ہونے کی کوئی نہ کوئی وجہ بیان کرتے ہیں۔ آج ہم سب سے زیادہ مشکور تو غزہ کے ان باسیوں کے ہیں جنہوں نے اقصیٰ کی مقدس سرزمین کی حفاظت کیلئے اپنا سب کچھ قربان کردیا ہے۔ پچھلے سو سال کے عرصے میں،سلطنت عثمانیہ سے لیکر MBS اور MBZ تک نے مداہنت کی راہ اختیار کی لیکن غزہ کے سرفروشوں نے اُمتِ مسلمہ بلکہ انسانیت کی لاج رکھ لی اور ظلم و زبردستی کے سامنے ڈٹ گئے۔ بلاشبہ ہم سب ان کے انتہائی احسان مند اور مشکور ہیں۔یورپ کی سفید نسل کے لوگوں نے برِاعظم امریکہ دریافت کرنے کے بعد پہلے تو یہاں کی مقامی آبادی کی بڑے پیمانے پر نسل کشی کی، پھر جب زراعت کے کام کیلئے محنت کشوں کی ضرورت پیش آئی تو افریقہ سے سیاہ فام لوگوں کو غلام بنا کر لے آئے۔ ان دونوں مظلوم نسلوں کے لامحدود استحصال اور عظیم قربانیوں سے یہ جدید ریاست ہائے متحدہ امریکہ وجود میں آئی، جو آج اپنے آپ کو ورلڈ آرڈر قرار دے کر پوری دنیا سے خراج وصول کر رہی ہے اور ساتھ ساتھ یہ بھی چاہتی ہے کہ پوری دنیا اسے انسانیت کے بنیادی حقوق کا ضامن گردانے۔بظاہر تو ThanksGiving کا تہوار، امریکی تہذیب کا بڑا سافٹ امیج فراہم کرتا ہے لیکن لوگ کیسے بھول جائیں کہ امریکہ بہادر انسانی تاریخ کا واحد ملک ہے جس نے ایٹم بموں کا استعمال کرکے Collateral Damage کی بھیانک ترین مثال کی۔ ویتنام، کوریا، عراق، افغانستان، شام، یمن، لبنان، لیبیا اور فلسطین پر خون خوار چڑھائیاں، بھلا کوئی کیسے نظر انداز کرسکتا ہے۔ غزہ کی چھوٹی سی پٹی پر، کیمروں کے عین سامنے ہسپتالوں اور اسکولوں کی بربادی، امریکی ہتھیاروں اور ہاتھوں کی ہی کارستانی تو ہے۔ آج امریکہ کی اپنی نوجوان نسل، انگشت بدنداں ہے کہ یہ ہمارے نام پر کتنا بڑا ظلم ڈھایا جا رہا ہے؟ غزہ کے فلسطینی، اپنے ہاتھوں میں اپنے معصوموں کی لاشیں تھام کر جب اپنا رخ آسمان کی طرف کرتے ہیں تو ورلڈ آرڈر کی بنیادیں ہل جاتی ہیں۔ اس سال کی تھینکس گونگ نے بالکل کوئی سافٹ امیج نہیں بنایا۔ مجرم حکمران مجرم ہی نظر آتے رہے، عوام بے یقینی کا شکار رہی، غزہ کے مظلوموں کی چیخوں نے سکونِ قلب تو چھینا ہی، ورمانٹ کا ایک گورا اٹھا اور تین نوجوان فلسطیونیوں کو بغیر کسی اشتعال کے گولی ماردی۔ ہماری نیوجرسی کی مسلم کمیونٹی نے یہاں کی سب سے بڑی شاہراہ، نیو جرسی ٹرن پائک پر میلوں لمبی، کار ریلی نکالی۔ سیز فائر کے حق میں مزید بل بورڈ لگ گئے۔ پریشانی اور اداسی کے اس ماحول میں ٹرکی ڈنرز کا بھی کوئی کیا مزہ لے سکتا تھا۔ بلاشبہ، امریکیوں کا احساسِ جرم بڑھتا جارہاہے۔ اسی لئے تو کہا گیا ہے کہ:
برگشتہ یزداں سے کچھ بھول ہوئی ہے
بھٹکے ہوئے انساں سے کچھ بھول ہوئی ہے
تھینکس ِگونگ کی اصل چھٹی تو صرف ایک دن جمعرات کو ہی ہوتی لیکن زیادہ تر ادارے جمعہ کی بھی تعطیل کر دیتے ہیں تاکہ چار دن کا لانگ ویک اینڈ بن جائے۔ اس لانگ ویک اینڈ پہ لاس اینجلس، کیلیفورنیا اور ہیوسٹن، ٹیکساس میں مسلم کمیونٹی کے دو بڑے کنونشن منعقد ہوئے۔ MAS اور ICNA کے تحت ہر سال ان ریجنل کنونشنز کا انعقاد ہوتا ہے۔ اس مرتبہ، ان کنونشنز کا موضوع بھی فلسطین میں ہونے والی تباہی اور بربادی پر بھرپور احتجاج تھا۔ امید ہے اب نئی نسل، جرم و ظلم کے خلاف زیادہ بہتر کردار ادا کرے گی۔ادائیگیِ شکر کے اس امریکی تہوار کی ایک خاص روایت یہ بھی ہے کہ لوگ اپنے شکر گزار ہونے کی خاص وجوہات ایک دوسرے سے شئیر کرتے ہیں۔ ہم تو سب سے پہلے اپنے مسلمان ہونے پر اللہ تعالی کے شکرگزار ہوتے ہیں۔ غیر مسلم امریکی بھی زیادہ تر اپنے اظہارِ تشکر میں کافی مذہبی ہوجاتے ہیں۔ الہامی مذاہب میں کافی قدریں مشترک ہیں اور یہی مشترکہ اقدار، بین المذاہب ڈائیلاگ کی بنیادیں فراہم کرتی ہیں۔
ہر سال بہت بڑے پیمانے پر ادائیگی شکر کا تہوار تو منایا جاتا رہے گا اور ٹرکی کے لذیذ ڈنر کے موقع پر عوام و خواص، بڑے شدومد سے اظہارِ تشکر بھی کرتے رہیں گے مگر بقولِ قابل باندوی صاحب:
اللہ تیرا شکر ادا ہو نہیں سکتا
گوبندہ ناچیز سے کیا ہو نہیں سکتا
٭٭٭