ہمارے حکمران ہندوستان کی تاریخ سے کیا سیکھتے ہیں؟

0
18
کامل احمر

تاریخ گواہ ہے کہ برطانیہ کی ایسٹ انڈیا کمپنی کو نکالنے کے لئے ہندوستان کے راجہ اور مہارا جائوں نے آمنے سامنے آکر لڑنے میں اپنی جانوں کی قربانیاں دیں۔ آپ سوچ سکتے ہیں راجہ اور نواب کو اپنی ریاست اور راج بچانے کے لئے اور عوام کو غلامی سے بچانے کے لئے بے خوف وخطر اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرنا پڑا اور یہ لوگ جوان تھے۔ ہندو اور مسلمان دونوں اس جنگ اور جدوجہد میں شریک رہے، گوالیار کے مہاراجہ گنگادھررائو نے1852میں لارڈ ڈلیوزی کی فوج سے لڑتے ہوئے24سال کی عمر میں جان دی۔ اس کے بیٹے کو جو اس نے پالا تھا کو راجد دھانی دینے سے انکار کیا تو اسکی ماں(جس نے پالا تھا) بھانسی کی رانی لکشمی بائی نے انگریزوں کے خلاف تلوار اٹھائی جس کے لئے اسے بچپن سے ہی تیار کیا گیا تھا اور انگریزوں کی فوج سے تانتیا ٹوپی کے ساتھ مل کر انگریز فوجوں سے جنگ کردی۔ انگریزوں نے لکشمی بائی کو پیشکش کی تھی۔60ہزار ماہانہ کی اور شرط رکھی تھی کہ وہ گوالیاء کے قلعے کو خالی کردے۔ اس نے سب کچھ ٹھکرا کر ان سے مقابلے کو ترجیح دی اور لڑتے ہوئے صرف22سال کی عمر میں جان دی۔ 1789میں ٹیپو سلطان نے انگریزوں کے خلاف جنگ شروع کی اور1792میں سرنگا ٹیم میں لڑتے ہوئے جان کی بازی لگا دی۔ ٹیپو سلطان میسور کا حکمران تھا۔ اسی جنگ میں اسکے کمانڈر میر صادق کی غداری کا انکشاف ہوا جس نے اپنی فوج کو آگے نہیں بڑھنے دیا اور ٹیپو سلطان سے غداری کرتے ہوئے پہلے۔ ٹیپو کے کمانڈر غازی خان کو قتل کیا اور اسکے بعد ٹیپو بند دروازے کے پیچھے بند کردیا۔ ٹیپو شیر میسور کے لقب سے بھی مشہور ہوا اس کا کہنا تھا، شیر کی ایک دن کی زندگی بہتر ہے گیڈر کی سو دن کی زندگی سے۔ اس وقت ٹیپو کی عمر44سال کی تھی۔ اور آج بھی اور رہتی دنیا تک ٹیپو، اور جھانسی کی رانی زندہ رہیں گے۔ ایک اور مرد مجاہد بنگال کا پیدا ہوا جس کا نام سراج الدولہ ہے۔ جو بنگال کا نواب تھا۔ جس نے صرف1756سے1757یعنی ایک سال حکومت کی اسے اس دور میں بڑے بڑے مسائل پیش آئے اور اسکا کمانڈر میر جعفر جو انگریزوں سے ملا ہوا تھا۔ رابرٹ کلائیو کی فوج سے پلاسی کے میدان میں3ہزار فوج کے سامنے ہار گیا۔ حالانکہ اسکے پاس50ہزار فوج اور40توپوں کے علاوہ10جنگی ہاتھی تھے۔ رابرٹ کلائیو نے میر جعفر کو لالچ دے کر خرید لیا تھا جو کمانڈر انچیف تھا۔2جولائی1757کو اُسے بزٹش راج نے پھانسی دے دی اور وعدہ کے مطابق میر جعفر کو انگریز راج کی طرف سے حکومت کرنے کا موقعہ دیا گیا۔ تاریخ میں دو غدار میر جعفر اور میر قاسم ہمیشہ کے لئے نقش کردیئے گئے۔ اس واقع سے آپ کو یاد آگیا ہوگا کہ میر جعفر کی جگہ ہم قمر باجوہ یا عاصم منیر کو لے سکتے ہیں۔ اس میں شبہ کی بات نہیں آپ تھوڑی دیر کے لئے سوچیں کہ اس دور میں۔ اور سوچیں خاندان غلاماں التمش کی بیٹی رضیہ سلطانہ کا جو دہلی کی حکمران بنی اور اس نے غیر مسلم پر سے ٹیکس ختم کرنے کی تحریک چلائی لیکن ناکام ہوئی۔ مولویوں نے اسکے خلاف فتوے دیئے اور اسکے محافظ نے اسے قتل کردیا۔ رضیہ سلطانہ بدایوں(یوپی) کی پیدائش تھی جو ولی اولیائوں کی سرزمین کہلاتا ہے۔ یہ سب لکھنے کا مقصد اس کے علاوہ کچھ نہیں کہ ہم آج کے سیاست دانوں ان حواریوں، جنرلوں اور انکے فوجیوں کو ہندوستان کی تاریخ بتاتے چلیں جس سے ان کے پرکھوں کا تعلق ہے اور اب ایسا کیا ہوگیا کہ سب کے سب ان بڑی طاقتوں کے سامنے سر جھکائے کھڑے ہیں۔ اور ایک ٹیپو سلطان، اندر ہے اور سب کے سب مل کر اس کا نام مٹا دینا چاہتے ہیں۔ کیا آپ کو نوازشریف، زرداری، فضل الحق اور دوسرے ملک کے دشمنوں میں میر جعفر اور قاسم کی تصویر نظر نہیں آتی۔ ایسا کیوں ہے اس کا ایک ہی جواب ہے۔
ہمارے پیغمبر رسول صلعم نے جن باتوں سے دور رہنے کے لئے کہا ہے اور قرآن پاک میں بار بار ذکر ہے جن باتوں سے پرہیز کرنے کا ہم ان تمام باتوں سے گریز کرتے ہیں۔ جانتے ہیں مگر مانتے نہیں۔ دل میں کہتے ہیں کچھ نہیں ہوگا۔ غلط ذرائع سے دولت بناتے ہیں عوام کا حق لوٹتے ہیں۔ انصاف دینے سے گریز کرتے ہیں اور آنے والی نسلوں کو تعلیم سے دور رکھتے ہیں ان کی سوچ بدلتے ہیں۔ ایک اچھے خاصے نصاب کو بدل کرoلیول کرتے ہیں۔ اور زرمبادلہ باہر بھیجتے ہیں بجانے قومیت کے نسلوں کو انگریزی میں ڈھالتے ہیں۔ اور جو اس قابل نہیں انہیں مدرسوں کی بھینٹ چڑھاتے ہیں۔ مذہب کا تیا پانجا کرتے ہیں اور ہوا دیتے ہیں ایک دوسرے کے خلاف باتیں کرکے نفرتوں کو اور یہ سب کرنے کے لئے کوئی انکے سامنے تلوار تانے نہیں کھڑا ہے۔ یہ بس مجبور ہیں اور اس بیورو کریسی کی پیداوار ہیں جو جاتے جاتے انگریز ہمیں دے گیا۔ لیکن ایسا پڑوسی ملکوں انڈیا اور بنگلہ دیش میں کیوں نہیں ہوا۔ سوچیں اور غور کریں ہم نہیں بلکہ ہمارے بدنام زمانہ حکمران، عاصم منیر اور انکے جنرلز جنہوں نے افواج کو بدنام کیا ہوا ہے۔ چاروں طرف سے لوٹ رہے ہیں لوٹے جارہے ہیں اور سیاست لڑائے جارہے ہیں ان میں کوئی مرد کا بچہ سچا مسلمان دور کی بات انسان نہیں ہے جہاں کا قانون جنگل کے قانون سے بھی برا ہے کہ پرندے اور جانور اتنا ہی کھاتے ہیں جتنی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ تجربہ ہم نے اپنے گھر کے پچھواڑے چڑیوں پر کیا ہے کہ کسی دن دو گلاس سے زیادہ ان کا دانہ ڈال دیں تو آدھا دانہ دوسرے دن کے لئے رہ جاتا ہے۔
ہم قناعت پسند کیوں نہیں ہمارے جنرلز اور سیاست دان عورتیں مرد کیوں شراب نوشی کرکے دھت ہوجاتے ہیں۔ ان کی اوقات زیرہ ہے سنا ہے عاصم منیر تھوڑا سا پی لیں تو غصہ میں گالیاں بکتے ہیں۔ یہ ایک افسوس کا مقام ہے بری بات بلٹ ٹرین سے سفر کرتی ہے لیکن اچھی بات بھی اگر حکمران کریں تو آج کے دور میں سیکنڈوں میں پہنچتی ہے۔ غور کریں ان باتوں پر جو آج کا نوجوان کہہ رہا ہے، غلط ہے تو ہم ذمہ دار۔ میڈیا نے سیاست دانوں کے سامنے نوجوانوں کو جمع کیا نوجوانوں نے سوال کئے۔ آپ کی پارٹی میں یوتھ کی نمائندگی کتنی ہے اگر نہیں تو کیوں؟ کیوں پاکستان کے 60سے65فیصدی نوجوان باہر جانا چاہتے ہیں؟ اس اجتماع میںPTIکے کتنے نوجوان شامل ہیں؟ جس ملک میں ان پڑھ لوگ سائنس اور ٹیکنالوجی کے انچارج ہوں تو ترقی کیسے ہوگی؟ ایماندارانہ انتخاب کیوں نہیں اگر ہم ڈاکٹر قدیر کی خدمات بھلا سکتے ہیں تو ہم کیوں ان کے راستے پر چلیں؟ نوازشریف کو چوتھی بار بلا کر وزیراعظم بنانے سے کیا ہوگا؟ طلبا یونین پر پابندی کیوں؟ کیا ملک میں بنیادی انسانی حقوق ہیں؟۔
٭٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here