اسرائیل ،حماس جنگ کے عالمی اثرات !!!

0
63

اسرائیل فلسطین جنگ کوئی نئی نہیں ہے بلکہ برسوں سے جاری ہے لیکن اس مرتبہ اسرائیل اور فلسطین کے درمیان جنگ عالمی جنگ کا روپ دھار گئی ہے ، دنیا کے ہر ملک میں دونوں ممالک کے حامی مظاہروں میں شریک ہیں ، پہلی مرتبہ دیکھنے میں آیا ہے کہ امریکہ میں جنگ بندی کے خواہاں افراد کی تعداد 10 لاکھ سے تجاوز کر گئی ہے ، نیویارک سمیت دیگر ریاستوں میں آئے روز اسرائیل اور فلسطین کے حامی سڑکوں پر نظر آتے ہیں، یہ سلسلہ صرف احتجاج کی حد تک قائم نہیں ہے بلکہ اب فلسطین کے حامیوں نے صدر بائیڈن کے خلاف مہم کا بھی آغاز کر دیا ہے جس کا مقصد بائیڈن کوآئندہ مدت کے لیے امریکہ کا صدر منتخب ہونے سے روکنا ہے جس کی بڑی وجہ فلسطین کیخلاف جنگ میں اسرائیل کا ساتھ دینا ہے۔ امریکہ کے انددر بائیڈن حکومت پر دبائو بڑھنے کے بعد امریکہ نے اسرائیل کو خبردار کیا ہے کہ مزید جنگ جاری رکھنا ان کے لیے خطرناک ثابت ہو سکتا ہے ، امریکہ اعلیٰ حکام نے اسرائیل کو آگاہ کر دیا ہے کہ جنوبی غزہ میں جنگی کارروائیاں بڑھانے سے امریکی حکام کو بے چینی ہو رہی ہے کہ اس صورت میں لاکھوں فلسطینیوں کو بمباری سے بچنے کے لیے غزہ سے بچ نکلنے کی کوشش کرنا ہوگی، اس دوران شہری ہلاکتوں کی تعداد بھی بڑھے گی۔جنوبی غزہ میں اسرائیلی بمباری میں اضافہ دور روز قبل اس وقت ہوا جب اسرائیل نے ایک ہی رات میں جنوبی غزہ میں 200 مقامات پر بمباری کی۔ امریکی حکام بشمول وزیر دفاع اور نائب صدر کملا ہیرس نے اسرائیل کو خبردار کیا ہے کہ اسرائیل کی جنگ کے باعث عام شہریوں کی جانوں کی بہت بھاری قیمت چکانا پڑ رہی ہے۔ غزہ میں فلسطینیوں کی شہادتوں کی تعداد 15500 سے تجاوز کر چکی ہے، جبکہ ان میں ستر فیصد تعداد فلسطینی عورتوں اور بچوں کی ہے۔ اسرائیل اور فلسطین کے درمیان جنگ بندی کے حوالے سے دونوں کے درمیان تنازعے کو سمجھنا ضروری ہے کہ بات یہاں تک آخر پہنچی کیسے؟ایک آزاد فلسطینی ریاست کے قیام میں تاخیر کے علاوہ اسرائیل کی جانب سے غرب اردن میں یہودی بستیوں کی تعمیر اور ان کے گرد سکیورٹی رکاوٹوں کی تعمیر نے امن کے حصول کو مشکل بنا دیا ہے۔ تاہم ان کے علاوہ بھی کئی اختلافات موجود ہیں۔اسرائیل یروشلم پر مکمل دعوی کرتا ہے اور اس کا دعویٰ ہے کہ یہ اس کا دارالحکومت ہے۔ تاہم اس دعوے کو بین الاقوامی حمایت حاصل نہیں ہے۔ فلسطینی مشرقی یروشلم کو اپنا دارالحکومت بنانا چاہتے ہیں۔فلسطینیوں کا مطالبہ ہے کہ ان کی مستقبل کی ریاست کے سرحدیں 1967 کی جنگ سے قبل کی حالت پر طے ہونی چاہیے تاہم اسرائیل اس مطالبے کو تسلیم نہیں کرتا۔اسرائیل نے 1967 کی جنگ کے بعد جن علاقوں پر قبضہ کیا، وہاں غیر قانونی بستیاں تعمیر کی گئی ہیں اور اب غرب اردن اور مشرقی یروشلم میں پانچ لاکھ کے قریب یہودی بستے ہیں۔ایک اور معاملہ فلسطینی تارکین وطن کا بھی ہے۔ پی ایل او کا دعویٰ ہے کہ اس وقت دنیا بھر میں ایک کروڑ سے زیادہ فلسطینی موجود ہیں جن میں سے نصف اقوام متحدہ کے ساتھ رجسٹر ہیں۔ فلسطینیوں کا کہنا ہے کہ ان افراد کو اسرائیل واپس آنے کا حق حاصل ہے جبکہ اسرائیل کا ماننا ہے کہ ایسا کرنے سے اس کی یہودی شناخت خطرے میں پڑ سکتی ہے۔ایسے میں امن کیسے قائم ہو گا؟ اس کے لیے دونوں جانب سے چند اقدامات ضروری ہوں گے۔ اسرائہل کو فلسطیونیوں کی آزاد ریاست کا حق تسلیم کرنا ہو گا، غزہ کی پٹی کے محاصرہ ختم کرنا ہو گا اور مشرقی یروشلم اور غرب اردن میں رکاوٹیں ختم کرنی ہوں گی،دوسری جانب فلسطینی گروہوں کو تشدد ترک کرنا ہو گا اور اسرائیل کی ریاست کو تسلیم کرنا ہو گا۔ ساتھ ہی سرحدوں، یہیودی بستیوں اور تارکین وطن کی واپسی کے معاملے پر بھی سمجھوتہ ضروری ہے۔ اسرائیل کی جانب سے مسلسل ہٹ دھرمی اور اپنے موقف پر ڈٹے رہنے کی وجہ سے حماس غزہ کی پٹی پر برسراقتدار فلسطینی عسکریت پسند گروہ ہے جو 2007 میں اقتدار سنبھالنے سے اب تک اسرائیل کے ساتھ متعدد جنگیں لڑ چکا ہے۔ان جنگوں کے علاوہ حماس نے اسرائیل پر ہزاروں راکٹ داغے ہیں اور کئی حملے کیے ہیں۔ اسرائیل نے بھی حماس کو کئی بار فضائی حملوں سے نشانہ بنایا ہے۔ 2007 سے اسرائیل نے مصر کی مدد سے غزہ کی پٹی کا محاصرہ کر رکھا ہے۔اسرائیل، امریکہ، برطانیہ اور یورپی یونین سمیت کئی عالمی طاقتیں حماس یا اس کے عسکری ونگ کو دہشت گرد قرار دے چکی ہیں۔ حماس کو ایران کی حمایت حاصل ہے جس سے یہ گروہ پیسہ، ہتھیار اور ٹریننگ حاصل کرتا ہے، دونوں قوتوں کے درمیان تنازعات کو حل کرانے کے لیے اقوام متحدہ کو کلیدی کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے جبکہ اس کے ساتھ امریکہ سمیت بڑی طاقتوں کو بھی اسرائیل پر دبائو بڑھانا ہوگا تاکہ دونوں قوتوں کے درمیان مستقل جنگ بندی کو ممکن بنایا جا سکے۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here