پاکستان میں ہمیشہ سے فوجی اسٹیبلشمنٹ کا زور سیاست دانوں پر چلتا رہا ہے،، ممکنہ طور پر اس زور کا اب اس صورتحال سے سامنا ہوچکا ہے جس سے بچنے کے لیے فوجی اسٹیبلشمنٹ اتنا زور لگایا کرتے تھے، لیکن اس صورتحال تک پہنچنے سے پہلے ہمیں ماضی پر نظر ڈالنی چاہئے اور ایک بار سوچنا چاہئے کہ فوجی اسٹیبلشمنٹ کی غیر قانونی اور غیر آئینی سرگرمیوں کو جو لوگ تنقید کا نشانہ بنایا کرتے تھے۔ کیا ہم تصور کر سکتے ہیں کہ ان لوگوں کا جینا حرام کر دیا جاتا تھا، اور ایسے ایسے القابات سے نوازا جاتا تھا جن کا یہاں پر لکھنا ممکن نہیں،پاکستان میں فوجی اسٹیبلشمنٹ اس قدر بااثر رہی ہے کہ بعض اوقات قومی مفادات کے خلاف بھی عوام اور حکومتوں پر ایسے فیصلے لاگو کیے جن کا مستقبل میں بہت زیادہ نقصان اٹھانا پڑا۔ایک بات یاد رکھیں کہ سیاست دان ہمیشہ اپنی سیاسی زندگی کو مدنظر رکھتے ہوئے فیصلے کرتا ہے جبکہ فوجی جرنیل تاریخ گواہ ہے کہ ہمیشہ جزووقتی فیصلوں کو سیلوٹ کرتے ہیں۔تاریخ ہمیشہ اپنے آپ کو دہراتی ہے اور لگتا یوں ہے کہ پاکستان میں تاریخ ایک بار پھر جمہوری رویوں کی واپسی کو خوش آمدید کہنے کے لیے تیار بیٹھی ہے۔پاکستان میں اگر مسائل کو حل کرنا ہے تو ہمیں آرٹیکل چھ کا اطلاق ان فوجی جرنیلوں پر لازمی کرنا ہوگا جو ملکی آئین کو اپنی جوتی کی نوک پر رکھ لیتے ہیں، یہ جرات پاکستان میں ایک سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کر چکے ہیں اور اس کے نتیجے میں آج کل کے انقلابیوں نے جس طرح فوجی جرنیلوں کا ساتھ دے کر اس کا چہرہ مسخ کیا وہ بھی تاریخ یاد رکھے گی۔
شاید ہی پاکستان میں اب کوئی ایسی سیاسی جماعت بچی ہو جس میں جنرل ہیڈ کوارٹر کے میس کا ذائقہ نہ ہو اور بعد میں دال کھانے کا بل مرغی کی قیمت سے ادا نہ کیا ہو لہٰذا پاکستانی سیاست دانوں کو چاہئے کہ اپنی بقا یعنی جمہوریت کو مضبوط بنانے کے لیے اپنے سیاسی ایجنڈوں سے ہٹ کر ایک جمہوری ایجنڈا بھی اپنے منشور میں شامل کریں اور اس کی بالادستی کے لیے کسی صورت کوئی سمجھوتہ نہ کریں کیونکہ آخر میں سیاست دانوں کو ہی اپنا چہرہ شریف لے کر عوام کے پاس جانا پڑتا ہے اور عوام کو جواب دہ بھی وہی ہوتے ہیں۔
٭٭٭