پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک میں غربت ایک سنگین مسئلہ ہے، جس نے عوام کی بڑی تعداد کو اپنے شکنجے میں جکڑ رکھا ہے۔ بے روزگاری، مہنگائی، اور بنیادی سہولیات کی کمی کے باعث عوام کی حالت دن بہ دن خراب ہوتی جا رہی ہے۔ ایسے حالات میں سیاسی جماعتوں کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ عوام کی فلاح و بہبود کے لیے مثر اقدامات کریں۔ لیکن بدقسمتی سے، پاکستان کی بیشتر سیاسی جماعتیں عوامی مسائل کے حل کے بجائے سیاسی ڈرامے بازیوں میں مصروف نظر آتی ہیں۔ غربت کے مسئلے پر ان کی توجہ محدود اور اکثر وقتی ہوتی ہے، جسے انتخابات کے دوران یا اپنے مفادات کے لیے نمایاں کیا جاتا ہے۔پاکستان میں غربت کی متعدد وجوہات ہیں مثلا روزگار کے مواقع کی کمی اور کمزور معیشت کے باعث ملک میں بے روزگاری عروج پر ہے۔ یہ صورتحال غربت کو مزید بڑھاوا دیتی ہے اور عوام کو معاشی طور پر پسماندہ رکھتی ہے۔ملک میں معیشت کی غیر یقینی صورتحال، بڑھتی ہوئی مہنگائی اور کمزور معاشی پالیسیوں کے باعث عام آدمی کی زندگی مزید مشکل ہوتی جا رہی ہے۔ سیاسی جماعتیں عوام کے معاشی مسائل پر توجہ دینے کے بجائے اقتدار کے حصول کے لیے سیاسی کھیلوں میں مصروف ہیں۔کرپشن بھی غربت کے پھیلا میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ کرپٹ سیاستدان اور بیوروکریٹس قومی خزانے کو لوٹ کر اپنے ذاتی مفادات پورے کرتے ہیں، جس کے نتیجے میں ترقیاتی منصوبے اور عوامی فلاح کے کام ناکام ہوتے ہیں۔پاکستان میں سیاسی جماعتیں اکثر عوامی فلاح و بہبود کے نعروں اور وعدوں کے ساتھ سامنے آتی ہیں، لیکن جب اقتدار میں آتی ہیں تو ان کے ارادے بدل جاتے ہیں۔ یہ سیاسی جماعتیں غربت جیسے اہم مسائل کے حل کے لیے وقتی اقدامات تو کرتی ہیں، لیکن ان کا اصل مقصد عوامی خدمت کے بجائے اقتدار کا حصول ہوتا ہے۔ یہاں چند اہم سیاسی حربے اور ڈرامے بازیاں بیان کی گئی ہیں جن سے سیاسی جماعتیں عوام کو گمراہ کرتی ہیں۔ الیکشن کے وقت وعدے: الیکشن کے وقت سیاسی جماعتیں عوام کو بڑے بڑے وعدے کرتی ہیں جیسے “غربت ختم کریں گے”، “روزگار دیں گے”، اور “تعلیم و صحت کے نظام کو بہتر بنائیں گے”۔ لیکن الیکشن کے بعد ان وعدوں کو بھلا دیا جاتا ہے اور عوام ایک بار پھر غربت کی چکی میں پسنے لگتے ہیں۔اکثر سیاسی جماعتیں حکومت میں آنے کے بعد عوام کو وقتی معاشی پیکجز دیتی ہیں، جس کا مقصد عوامی حمایت حاصل کرنا ہوتا ہے۔ یہ پیکجز وقتی ریلیف تو دیتے ہیں لیکن غربت کے مسئلے کا مستقل حل نہیں فراہم کرتے۔غربت میں کمی کے نام پر مختلف امدادی اسکیمیں چلائی جاتی ہیں، جیسے کہ “بینظیر انکم سپورٹ پروگرام” یا “احساس پروگرام” وغیرہ۔ یہ اسکیمیں بظاہر تو غریبوں کی مدد کے لیے ہیں، لیکن ان میں اکثر بدعنوانی، اقربا پروری اور وسائل کی کمی دیکھی جاتی ہے۔ سیاسی جماعتیں ان اسکیموں کو اپنی کارکردگی کے طور پر پیش کرتی ہیں، مگر ان کا دیرپا اثر کم ہوتا ہے۔بعض سیاسی جماعتیں غربت کے مسئلے کو پاپولسٹ بیانیے کے طور پر استعمال کرتی ہیں، جس سے وہ عوام میں مقبولیت تو حاصل کر لیتی ہیں، مگر عملی اقدامات میں ناکام رہتی ہیں۔ ایسے نعرے بازی اور ڈرامے بازیاں غربت جیسے سنجیدہ مسئلے کو مزید پیچیدہ بنا دیتی ہیںاگر سیاسی جماعتیں واقعی غربت کے خاتمے میں سنجیدہ ہیں تو انہیں چند ٹھوس اقدامات کرنے ہوں گے۔بے روزگاری کو کم کرنے کے لیے صنعتی اور تجارتی شعبوں میں سرمایہ کاری کی ضرورت ہے۔ اس سے عوام کو روزگار کے بہتر مواقع ملیں گے اور غربت میں کمی آئے گی۔کرپشن پر قابو پانے کے لیے شفافیت اور احتساب کا نظام ضروری ہے۔ اگر حکومت عوامی وسائل کا صحیح استعمال کرے اور کرپشن کو روکے تو غربت میں نمایاں کمی لائی جا سکتی ہے۔پاکستان میں غربت اور سیاسی جماعتوں کی ڈرامے بازی کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ سیاسی جماعتیں غربت کو صرف ایک سیاسی حربے کے طور پر استعمال کرتی ہیں، جس سے عوام کے مسائل حل ہونے کے بجائے مزید بڑھ جاتے ہیں۔ اگر سیاستدان واقعی سنجیدہ ہوں اور عوامی مسائل کو اپنی ترجیح بنائیں تو غربت کے خاتمے کے لیے موثر اقدامات کیے جا سکتے ہیں۔ غربت کے مسئلے کا حل صرف وعدے اور نعرے بازی نہیں، بلکہ حقیقی اقدامات اور مستقل منصوبہ بندی ہے۔
٭٭٭