شایدہی کوئی دِن ایسا نہ گذرتا ہو جب شہرہ آفاق اسپورٹس وومن ثانیہ مززا کسی خبر کی سرخی نہ بنی ہوں،کبھی خبر یہ ہوتی ہے کہ وہ شادی کرنے والی ہیں، خدا کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ شادی بخیر خوبی انجام پاجاتی ہے وگرنہ یہ کوئی آسان کام نہ تھا، تقریب قسطوں میں انجام پانی تھی، بارات پاکستان سے بھارت گئی تھی اور پھر لوٹ کر پاکستان واپس آگئی تھی، جہاں طعام ولیمہ منعقد ہوا تھا جس میں بہت سارے بِن بلائے مہمان آگئے تھے، اور جس کی وجہ کر کھانا کم پڑگیا تھا. بات بھارت تک پہنچ گئی تھی کہ ثانیہ مرزا کی طعام ولیمہ میں کھانا کم پڑگیا تھا. حیدر آبادی دلہن کی شادی میں کھانا کم پڑگیا تھا، لوگوں کی شیروانی اور اچکن تنگ پڑگئی تھی، شہر حیدرآباد میں یہ موضوع بحث بن گیا تھا، بات وزیراعظم تک پہنچ گئی تھی جنہوں نے تبصرہ کرتے ہوے کہا تھا کہ ” اور کر و پنجابیوں میں شادی تمام پینڈو آجاتے ہیں.” بہرنوع شادی کی بات پرانی ہوگئی تو ثانیہ مززا نے یہ سوچا کہ کچھ نیا شوشا چھوڑنا چاہیے، طلاق کی خبر پھیلا کر کچھ گرمی پیدا کرنی چاہیے،طلاق ہونی ہے یا نہ ہونی ہے ، اِس موضوع پر بحث زور و شور سے جاری ہوگئی، اِس بحث کے ساتھ ساتھ نئے موضوعات بھی لوگوں کی توجہ کے مرکز بن گئے، مثلا”ثانیہ مرزا اپنے بیٹے کا ڈائیپر چینج نہیں کرتی ہیں ، یہ کام بیٹر شعیب ملک انجام دیتے ہیں، وہ ڈائیپر چینج کرنے کے علاوہ ازہان کو یہ بھی بتادیتے ہیں کہ بلا کس طرح گھما یا جاتا ہے اور پھر ساتھ ساتھ مرزا ملک شو بھی جاری تھا، لوگ تعجب کر رہے تھے کہ یہ کیسی طلاق ہے، ایک جانب غم کا سماں ہے اور دوسری جانب چہروں پر مسکراہٹیں بکھر رہی ہیں لیکن کیا ثانیہ مززا نے یہ ویڈیو تقسیم کیا تھاجس میں وہ روتے ہوئے بیان کرتی
ہیں کہ ہاں بات سچ ہوگئی ہے . اُن دونوں میں طلاق ہوگئی ہے اور اب وہ اور اُن کا بیٹا کبھی پاکستان نہیں جائینگے، یہ تھا ٹی وی شو کا ڈراپ سین۔ لیکن اِسی کے ساتھ ثانیہ مرزا نے ٹینس سے بھی فائنل ریٹائرمنٹ لے لیا ہے، ٹینس آئیکون ثانیہ مرزا اپنے غمزدہ دِل کی بھڑاس نکالنے کیلئے انٹرنیٹ کا سہارا لیا اور کہا کہ آسٹریلیا اوپن اُن کی کیریئر کا آخری کھیل ہوگا. اُن کے ساتھ ساتھ اُن کے شائقین بھی رو پڑے تھے،لیکن رسم کے آخر میں ثانیہ مرزا نے اپنی زندگی کے ایک اہم راز کو بھی افشا کردیا ، مبصرین کی رائے میں آیا ثانیہ مرزا کا کردار پیش پیش تھا یازی ٹی وی کی ذرہ نوازی تھی بہرحال بات طشت از بام تک پہنچ گئی تھی۔بات راز کی یہ تھی کہ ثانیہ مرزا شعیب ملک سے شادی سے قبل ایک طویل عرصہ تک سہراب مرزا کے ساتھ اپنی زندگی کے رومانٹک لمحات گذارے تھے، دراصل دونوں کی فیملی نسل در نسل سے حیدرآباد کی ساکن تھی، سہراب مرزا ثانیہ کے بچپن کا دوست تھا، اور پیشہ کے لحاظ سے بیکری کے کاروبار سے منسلک تھا. معلوم ہوا ہے کہ ثانیہ مرزا سہراب کے ہاتھ کا بنا ہوا رول انتہائی شوق سے کھاتی تھیںتاہم یہ بات بہت کم لوگوں کو معلوم ہے کہ شادی سے قبل ثانیہ کے چکر سہراب سے چل رہے تھے۔یہ بھی ایک عجوبہ بات ہے کہ حیدرآباد جو ایک انتہائی قدامت پسند کلچر کا گہوارہ سمجھا جاتا ہے وہاں کی مشہور فیملی کا ایک جوڑا دِن دہارے گل چھرے اُڑارہا تھا اور سارے حیدرآبادی تماشا دیکھ رہے تھے، سہراب کی ثانیہ سے منگنی ہوچکی تھی. لیکن شومئی قسمت کے منگنی کے بعد یہ بات عیاں ہونے لگی کہ وہ دونوں دو دوسری دنیا کے مخلوق ہیں اور اُن کا سنگم ناممکن ہے. اُن دونوں نے ہر ایک شے کو دو مختلف زاوئیے سے دیکھنا شروع کردیا تھا، ثانیہ کو ٹینس کھیلنے کا شوق تھا جبکہ سہراب کرکٹ کا شائق تھا. یہی وجہ ہے کہ جب ثانیہ شعیب ملک سے ڈیٹنگ شروع کی تھی تو یہ سہراب کیلئے ایک خوش آئند بات سے کم نہ تھی. ثانیہ مرزا کو یہ بات بھی پسند نہ تھی کہ اُسکا ہونے والا شوہر دِن بھر آٹا گوندتا پھرے لیکن یہ تو ماضی کی باتیں تھیں ، تازہ ترین صورتحال میں شعیب اور ثانیہ کے طلاق کا اسکینڈل اپنے عروج پر ہے. تاہم اُن دونوں نے اب تک اِس کی کوئی تروید نہیں کی ہے.طلاق کی صورت میں
کون سے نوادرات کون سی پینٹنگ شعیب ملک کے پاس رہینگے اور کون سی ثانیہ مرزا ہتھیا لینگی اِسکا فیصلہ ہونا ابھی باقی ہے. جائداد و ملکیت کا بٹوارا ہونا بھی باقی ہے، ایک اندازے کے مطابق دونوں کے پاس 25 ملین ڈالر کا بینک بیلنس موجود ہے جس پر قابض ہونے کیلئے دونوں کے مابین سرد جنگ جاری ہے، معلوم ہوا ہے کہ شعیب ملک ہر صبح اٹھ کر یہ چیخ لگانا شروع کردیتے ہیں کہ کس نے اُن کے سیونگ اکاؤنٹ سے 10 لاکھ روپے نکال لئے ہیں. ثانیہ مرزا بھی چیخ کر جواب دیتی ہیں کہ گذشتہ ہفتے کے دِن کسی نے اُن کے اکاؤنٹ سے بھی اتنی رقم نکال لی تھی۔
قطع نظر لین دین کے یا اِن چھوٹے موٹے جھگڑوں کے جو بات سبھوں کے توجہ کا مرکز بن رہی ہے وہ یہ ہے کہ اُن دونوں کی اولاد ازہان مرزا کی پرورش کون کریگا؟ ثانیہ کی والدہ نے ایک انتہائی ناخوشگوار حالات میں ثانیہ کی پرورش کی تھی، ہر دوراہے پر اُنہیں نبرد آزما ہونا پڑا تھا، ایک مسلمان بچی کے حقوق کیلئے جنگ لڑنا پڑی تھی،اُنہیں اسکول میں داخلہ کیلئے تلخ و ترش مکالمات کا تبادلہ کرنا پڑتا تھا، ٹینس کلب میں داخلہ کیلئے کوچ سے جنگ لڑنا پڑتی تھی، یہ سارے مصائب یہ ساری مشکلات سے صرف ایک حیدرآبادی ماں ہی مقابلہ کر سکتی تھیں. لیکن اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ثانیہ کی والدہ کا درجہ حاصل کرنے کیلئے کون صلاحیت رکھتا ہے؟یا اب صرف تاریک ہی تاریک حیدرآباد کی اِس فیملی کا مقدر ہے؟