متضاد عدالتی فیصلے!!!

0
33
ماجد جرال
ماجد جرال

پاکستان کی عدلیہ کو اس وقت جس سب سے سنگین مسئلے کا سامنا ہے وہ دوہرے عدالتی فیصلوں اور عوامی عدم اعتماد کا ہے۔ عدالتوں سے آنے والے متضاد اور متنازعہ فیصلے عوام میں غیر یقینی اور عدم اعتماد کی فضا کو جنم دیتے ہیں۔ یہ صورتحال ایک مضبوط اور منصفانہ عدالتی نظام کے لیے نقصان دہ ثابت ہو رہی ہے۔ عدلیہ کی ساکھ عوامی اعتماد کے بغیر قائم نہیں رہ سکتی، اور دوہرے فیصلے اس ساکھ کو بری طرح متاثر کر رہے ہیں۔دوہرے عدالتی فیصلوں سے مراد ایسے عدالتی فیصلے ہیں جن میں ایک ہی نوعیت کے مقدمات میں مختلف یا متضاد نتائج سامنے آتے ہیں۔ یہ مسئلہ اکثر اعلی عدلیہ میں دیکھنے کو ملتا ہے جب ایک ہی نوعیت کے مقدمات میں الگ الگ ججز کی بینچیں مختلف فیصلے صادر کرتی ہیں۔ ایک ہی آئینی یا قانونی نکتے پر مختلف ججوں کی تشریحات اور فیصلے عدالتی نظام میں عدم یکسانیت اور عوامی بے یقینی کو بڑھا دیتے ہیں۔مثال کے طور پر، سیاسی مقدمات میں اکثر دیکھا گیا ہے کہ ایک کیس میں عدالت ایک فیصلہ کرتی ہے اور اسی نوعیت کے دوسرے کیس میں بالکل مختلف فیصلہ صادر کیا جاتا ہے۔ ایسے دوہرے فیصلے عوام میں یہ تاثر پیدا کرتے ہیں کہ عدلیہ سیاسی دبا یا دیگر بیرونی عوامل کے زیر اثر فیصلے کرتی ہے، جس سے انصاف کی فراہمی غیر منصفانہ نظر آتی ہے۔پاکستانی عدلیہ کو دوہرے فیصلوں کا سامنا اس وجہ سے بھی ہے کہ عدالتی نظام میں مستقل مزاجی کی کمی ہے۔ ججز کے فیصلوں میں ذاتی آرا اور تشریحات کا عمل دخل زیادہ ہوتا ہے، جس کی وجہ سے مختلف کیسز میں الگ الگ فیصلے سامنے آتے ہیں۔ بعض اوقات مختلف جج ایک ہی قانونی نکتے پر مختلف رائے رکھتے ہیں، جس سے عدلیہ کے فیصلوں میں ہم آہنگی کی کمی نظر آتی ہے۔عدالتی فیصلوں میں یہ مستقل مزاجی کی کمی صرف قانونی نظام کو ہی متاثر نہیں کرتی بلکہ عوام کے لیے بھی ایک الجھن پیدا کرتی ہے۔ جب عوام دیکھتے ہیں کہ ایک ہی جیسے مقدمات میں مختلف نتائج سامنے آ رہے ہیں، تو وہ عدلیہ کے نظام پر شک کرنے لگتے ہیں۔دوہرے عدالتی فیصلے عوامی اعتماد کو بری طرح متاثر کرتے ہیں۔ عوام کو یقین ہونا چاہیے کہ عدلیہ غیر جانبدار، شفاف اور مستقل بنیادوں پر انصاف فراہم کرے گی لیکن جب عدلیہ کے فیصلوں میں تضاد نظر آتا ہے تو عوام کو محسوس ہوتا ہے کہ انصاف کے نظام میں غیر یقینی صورتحال اور عدم شفافیت ہے۔پاکستان میں عوامی عدم اعتماد کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ عدالتوں کے فیصلے اکثر سیاسی رنگ اختیار کر لیتے ہیں۔ سیاسی مقدمات میں مختلف عدالتی فیصلے، جو ایک دوسرے سے متضاد ہوتے ہیں، عوام کو یہ سوچنے پر مجبور کرتے ہیں کہ عدلیہ پر سیاسی دبا ہے یا عدالتی نظام سیاسی جماعتوں کے مفادات کی تکمیل کا ذریعہ بن رہا ہے۔ عوام کا یہ خیال ہوتا ہے کہ طاقتور افراد کے لیے عدلیہ کا معیار مختلف ہے، جبکہ عام شہریوں کو انصاف کے لیے سالوں تک انتظار کرنا پڑتا ہے۔عدالتی نظام میں تاخیر بھی عوامی عدم اعتماد کی ایک بڑی وجہ ہے۔ دوہرے فیصلوں کے ساتھ ساتھ عدالتی فیصلوں میں تاخیر عوام کے لیے مزید مایوسی کا باعث بنتی ہے۔ جب عدالتیں مقدمات کے فیصلوں میں سالہا سال لگا دیتی ہیں، تو عوام کا نظام عدل پر اعتماد کم ہوتا جاتا ہے۔ اس تاخیر کی وجہ سے عوام یہ سمجھنے لگتے ہیں کہ انصاف کا حصول ممکن نہیں یا اس کے لیے انہیں غیر معینہ مدت تک انتظار کرنا پڑے گا۔پاکستانی عدالتی نظام میں دوہرے عدالتی فیصلوں اور عوامی عدم اعتماد کے مسئلے کا حل صرف جامع اصلاحات کے ذریعے ممکن ہے۔ سب سے پہلے، عدالتوں کو اپنے فیصلوں میں مستقل مزاجی اور ہم آہنگی پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ سپریم کورٹ کو ایک ایسا میکانزم بنانا چاہیے جس کے تحت مختلف ججز کے فیصلوں میں ہم آہنگی ہو اور متضاد فیصلوں سے بچا جا سکے۔اس کے علاوہ، عدالتی نظام میں شفافیت کو یقینی بنانے کے لیے ججز کی تقرری، احتساب، اور ان کی کارکردگی کا جائزہ لینے کے لیے ایک خود مختار ادارہ تشکیل دینا ضروری ہے۔ ججز کے فیصلوں کی کڑی نگرانی اور قانونی تشریحات کی واضح رہنمائی فراہم کرنے سے عدالتی نظام میں بہتری آ سکتی ہے۔پاکستانی عدلیہ کو دوہرے فیصلوں اور عوامی عدم اعتماد کے چیلنج کا سامنا ہے، جو انصاف کی فراہمی کے عمل کو متاثر کر رہے ہیں۔ اگرچہ عدلیہ کا بنیادی کردار عوام کو انصاف فراہم کرنا ہے، لیکن دوہرے فیصلے اور عدلیہ پر بڑھتا ہوا عدم اعتماد اس مقصد کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔ عدلیہ کو اپنے فیصلوں میں مستقل مزاجی اور شفافیت کو فروغ دینے کے لیے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے تاکہ عوام کا اعتماد بحال ہو اور انصاف کا نظام مضبوط ہو۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here