پاکستان کی
جگ ہنسائی !!!
پاکستان کہنے کو تو ایک جمہوری ملک ہے جہاں ہر پانچ سال بعد الیکشن کے بعد نئی جمہوری حکومت کا انتخاب کیا جاتا ہے لیکن تصویر کوئی اور ہی رُخ پیش کرتی ہے ، قیام پاکستان کو اس وقت 77سال کا عرصہ گزر چکا ہے ، جمہوری حکومت نے کل ملا کر 33سال حکومت کی ہے ، اندازے کے مطابق اب تک 27کے قریب وزرائے اعظم نے حلف اٹھایا اور ہر کسی کو اوسط ڈیڑھ سال حکومت کو کرنے کو ملی جبکہ ملک میں 44سال فوجی حکمرانوں نے حکومت کی ، لگ بھگ 7جرنیلوں نے 8سال فی کس کے حساب سے پاکستان پر حکومت کی ، ان اعدادو شمار سے پاکستان میں جمہوریت کا اصل چہرہ نمایاں طور پر سامنے آ جاتا ہے ، لیکن اس کے ذمہ دار ہمارے حکمران ہی ہیں جوکہ اپنی کم عقلی ، ناقص حکمت عملی کی وجہ سے فوج کو حکمرانی کا موقع فراہم کرتے ہیں ، اب سیاستدانوں کی باہمی اور ذاتی دشمنیوں کی وجہ سے ملک کھڈے لائن لگا ہوا ہے ، ایک جماعت کو دیوار کے ساتھ لگا دیا گیا ہے ، اور اس کے لیڈر عمران خان کو 100سے زائد کیسوں میں پابند سلاسل کر دیا ہے ، ایک نکاح کیس میں قید کر رکھا ہے ، جبکہ باقی کیسوں میں ضمانت مل چکی ہے ، سیاسی عدم استحکام کے باعث ملک کی معیشت ، ترقی سمیت دیگر معاملات بری طرح متاثر کرتے ہیں۔سیاسی انتقام کی سیاست عروج پر ہے اور اس پر حکومتی وزرا کے بیان کہ عمران کو جیل میں رکھنے کے لیے کچھ بھی کرنا پڑا تو کریں گے ملک میں انارکی اور شدت کو جنم دے رہے ہیں ،یہی وجہ ہے کہ چین اور امریکہ کی جانب سے پاکستانی حکومت کو ملک میں سیاسی استحکام کیلئے عمران خان کی رہائی کی طرف اشارہ کیا گیا ہے لیکن حکومت اس سے قطع نظر اپنے معاملات میں سنجیدہ دکھائی نہیں دیتی ہے ، مذاکرات ، بات چیت کے زبانی جمع خرچ جاری ہیں، نہ حکومت کی طرف سے کوئی مذاکراتی کمیٹی سامنے آتی ہے نہ ہی پی ٹی آئی یا دیگر جماعتوں کی جانب سے کوئی ایسے نام سامنے آتے ہیں جوکہ بات چیت کر سکیں ، مہنگائی ، بے روزگاری، انارکی کے دوران اس قسم کے حالات نے عوام کو مایوس کر دیا ہے ، نوجوانوں کی بڑی تعداد بیرون ممالک کا رخ کر رہی ہے ، کاروباری طبقہ بھی سب کچھ چھوڑ کر دیار غیر کو ترجیح دے رہے ہیں۔پاکستان میں جمہوریت کو اپنی شکل میں پروان چڑھنا چاہئے، کوئی بھی جماعت، کوئی بھی حکمران ہو لیکن جمہوری روایات کی طرز پر حکمرانی ہونی چاہئے ،دنیا کی بڑی جمہوریتوں میں یہ عام سی بات ہے کہ الیکشن میں ایک دوسرے کے حریف سیاستدان انتخابی نتائج کے بعد اپنی فتح اور شکست کو قبول کرتے ہوئے ایک دوسرے کو گلے لگا لیتے ہیں ، امریکہ ، بھارت، چین، روس سمیت دیگر ممالک میں یہ روایات عام سی بات ہے لیکن پاکستان میں اس کو ”انا” کی جنگ بنا لیا جاتا ہے ، سیاستدان ہاتھ ملانا تو ایک طرف ایک دوسرے کی شکل دیکھنے کے لیے تیار نہیں ہوتے جوکہ پاکستانی معاشرے میں مزید بگاڑ کا سبب بن رہے ہیں ۔عدت میں نکاح کیس میں سابق وزیرِ اعظم عمران خان اور اْن کی اہلیہ کی سزا معطلی کی اپیلیں مسترد ہونے کے بعد اْن کی رہائی کی اْمیدیں بھی دم توڑ گئی ہیں۔حالیہ چند روز سے پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما یہ دعویٰ کر رہے تھے کہ عمران خان جلد جیل سے رہا ہونے والے ہیں۔ تاہم وزیرِ اعظم کے مشیر رانا ثناء اللہ نے کہا تھا کہ حکومت کی کوشش ہو گی کہ قانون کے مطابق عمران خان کو زیادہ سے زیادہ دیر تک جیل میں رکھا جائے،اگر عدت کیس میں عمران خان کی رہائی ہو بھی جائے تو عمران خان کو ریلیف مل بھی جاتا تو بھی عمران خان کو جیل میں رکھنے کے لیے مزید کیسز تیار ہیں۔ نیب توشہ خانہ سے متعلق ایک نئے کیس کی تحقیقات کر رہا ہے اس میں بھی گرفتاری ڈالی جا سکتی ہے جبکہ وفاقی تفتیشی ادارہ (ایف آئی اے) شیخ مجیب الرحمٰن سے متعلق ویڈیو پوسٹ کرنے کی بھی تحقیقات کر رہا ہے اور اس میں بھی کارروائی آگے بڑھ سکتی ہے۔اب وقت آگیا ہے کہ پاکستان کے حکمران ایک ہو کر ملک کی ترقی کے لیے مشترکہ لائحہ عمل تیار کریں ، اب یہ ملک مزید محاذ آرائیوں کا متحمل نہیں ہو سکتا ہے ، حکومت کسی بھی جماعت کی ہو، ن لیگ آئے یا پی ٹی آئی ، یا پھر پیپلزپارٹی ملک میں عام آدمی خوشحال ہوناچا ہئے ، سیاستدانوں کی آپس کی لڑائیاں، محاذ آرائیاں پہلے بھی فوجی حکمرانوں کو دعوت دے چکی ہیں اور اب بھی ملک کا منظر نامہ وہی صورت حال پیش کررہا ہے ،آج 77سال بعد بھی پاکستان نازک موڑ سے گزر رہا ہے ، اب ہمیں اس موڑ کو” خدا حافظ” کہہ دینا چاہئے ۔
٭٭٭