چوتھی قسط
آپ کو جہانگیر کے لقب سے بھی ملقب فرمایا اور ایک دو سال نہیں بلکہ حضرت مخدوم پاک نے اپنے مرشد کی صحبت بافیض میں بارہ سال کا طویل عرصہ گزارا اور ان بارہ سالوں میں کس قدر آپ روحانی بالیدگی سے سرشار ہوئے اس کا اندازہ کون کرسکتا ہے۔
حضرت مخدوم پاک کے دور میں سحر کے اثرات روز بہ روز شدت پکڑتے جارہے تھے۔ لوگ سحر کی طاقت اور شعبدہ بازیوں سے شرک وکفر کو عام کرنے کی ناپاک کوششوں میں لگے ہوئے تھے۔ آپ نے اپنے روحانی تصرفات و اقدار اور کرامات کے ذریعے ہزاروں کفرو شرک کے خوگروں کو اسلام کے زیور سے آراستہ وپیراستہ کیا اور پوری زندگی دین متین اور خلق اللہ کی خدمت میں خنداں وفرحاں صرف کردی۔ پاسبان ملت حضرت علامہ مشتاق احمد نظامی علیہ الرحمہ نے اپنی کتاب مستطاب میں حضرت مخدوم پاک کا ایک واقعہ قلمبند فرمایا ہے جس کو پڑھنے کے بعد حضرت مخدوم پاک کا جذبہ خدمت خلق واشگاف ہوجاتا ہے۔ لکھتے ہیں:
”حضرت مخدوم پاک ایک دن کمر باندھ رہے تھے۔ مرشد نے پوچھا کیا کر رہے ہو؟ آپ نے فرمایا خدمت خلق کے لیے کمرکس رہا ہوں۔ مرشد نے بہ زبان فارسی فرمایا ”اگرمی بندی محکم بہ بند کہ ہیچ درمیان نداری”یعنی اگر کمرکس رہے ہو تو مضبوطی سے کسوتا کہ پھر کوئی چیز درمیان میں نہ رہے۔ آپ نے فرمایا ”آرزوئے نفس از میاں بیروں کشیدم تا زندہ” یعنی جب تک زندہ رہوں گا نفس کی آرزوئوں کو دو رہی رکھوں گا۔”
یوں تو حضرت مخدوم پاک کے اقوال زرّیں کثیر و وقیع ہیں مگر خدمت خلق سے متعلق آپ کا ایک انتہائی اہم اور درس خیز قول پیش کرکے تحریر ختم کرنا چاہوں گا۔
آپ فرماتے ہیں:
”بعض لوگوں کا خیال ہے کہ نوافل پڑھنا خدمت خلق سے بہتر ہے۔ انکا یہ خیال غلط ہے کیوں کہ خدمت خلق کا جو اثر قلب پر پڑتا ہے وہ ظاہر ہے۔ دونوں کے نتائج پر نظر کرتے ہوئے یہ تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ خدمت خلق نوافل پڑھنے سے بہتر ہے۔” اسی لیے انگریزی میں کہتے ہیںService to man is worship to Allah the almighty.۔
٭٭٭