ٹیکنالوجی کے میدان کا آج ایک اور تاریخی دن تھا، آئی فون سولہ (iPhone 16) بالآخر آج صارفین کے ہاتھوں تک آ پہنچا۔ میں بھی آج انہی خوش قسمت لوگوں میں شامل رہا، جنہوں نے ٹیکنالوجی کے اس معجز نما عجوبے سے اس کی رونمائی کے پہلے دن ہی، فون کالز اور پیغام رسانی کی۔ اس تجربے نے میری وہ پرانی یادیں تازہ کردیں جب میں AT&T Bell Labs میں کمپیوٹرز کی فیلڈ میں سائنس دان کی حیثیت سے کام کیا کرتا تھا۔ مسلسل بیس سال تک، ریسرچ کے بہانے، ٹیلی فونز کو کھلونوں کی طرح استعمال کرنے کے بعد، تقریبا اسی وقت اپنی پیاری لیبارٹری کو خدا حافظ کہنے کا فیصلہ کیا تھا جب دنیا کے سب سے پہلے iPhone کی جانچ پڑتال مکمل ہونے کے بعد صارفین کو دئیے جانے کا اعلان ہوا تھا۔ ہماری کمپنی AT&T اور Apple کی یہ خصوصی شراکت تھی۔ ان دنوں کسی اور کمپنی کو iPhone بیچنے کی اجازت نہیں تھی۔ وہ چند ماہ مجھے اچھی طرح یاد ہیں جب پوری دنیا میں اس نئے فون کی دھوم مچی ہوئی تھی اور لوگ دیوانہ وار طویل قطاروں میں لگ کر یہ عجوبہ فون خرید رہے تھے۔ اس فون کی مقبولیت اس قدر بڑھی کہ ایپل کی مصنوعات کے شائقین کا ایک ایسا فرقہ (Cult) وجود میں آگیا، جس کا مذہب ہی ایپل بن گیا۔اللہ تعالیٰ نے حضرتِ انسان کو اشرف المخلوقات کا درجہ دے کر اسے نئی نئی ایجادات کی صلاحیت عطا کی ہے۔ اسی صلاحیت کے بل بوتے پر یہ انسان، کائنات کو مسلسل تسخیر کرنے میں لگا ہوا ہے۔ آج ہماری ہتھیلی پر رکھا ہوا یہ عجوبہ، اپنے اندر کیا کچھ چھپائے ہوئے ہے، اس کا احاطہ کرنا، ایک عام صارف کیلئے انتہائی مشکل بلکہ ناممکن ہے۔ کیمرہ، جی پی ایس والے نقشے، ویڈیو اور آڈیو ریکارڈر، اردو، انگریزی اور دیگر زبانوں کیلئے ٹائپ رائیٹر، گھڑی، کیلکیولیٹر، پیجر، واکی ٹاکی اور بیسیوں دیگر ایپلیکیشنز، جو کچھ عرصہ پہلے تک، بذاتِ خود مکمل ایجادات تھیں، اب اس مختصر سے سمارٹ فون میں سما گئی ہیں۔ اس معجز نما فون کے بغیر، اب حضرتِ انسان کا گزارہ ہی نہیں ہو سکتا۔ اسی فون کو استعمال کرتے ہوئے ہم کتابوں کا مطالعہ کرتے ہیں، ٹی وی دیکھتے ہیں، ساری دنیا کی خبریں حاصل کرتے ہیں اور اپنے جاننے والوں کے ساتھ، مختلف موضوعات پر بحث مباحثہ کرتے ہیں۔ نوے کی دہائی میں، امریکہ میں بیٹھے ہوئے، اس عجوبے فون کے کئی ایجاد کرنے والوں کو بھی اس کے آجکل کے استعمال کا یقینا مکمل ادراک نہیں تھا لیکن انہوں نے سخت محنت کرکے اسے معرضِ وجود میں لایا تھا۔ کسی فراغ صاحب نامی شاعر نے کیا خوب کہا تھا کہ!
یہ نہیں دیکھتے کتنی ہے ریاضت کس کی
لوگ آسان سمجھ لیتے ہیں آسانی کو
اس وقت جب میں اپنے اس نئے نویلے iPhone 16 کو استعمال کرتے ہوئے، یہ کالم تحریر کر رہا ہوں تو انسان کی قوتِ تسخیر پر حیرانی ہو رہی ہے۔ اردو کے اس شاندار خطِ نستعلیق میں اپنا مضمون لکھنے کیلئے مجھے کسی بھی خاص تردد کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔ فون کے ساتھ نوٹس کی ایپ موجود ہوتی ہے۔ میں اسی کو استعمال کرتے ہوئے اپنی ساری تحریریں، بڑی آسانی سے قلم بند کر لیتا ہوں اور وہ محفوظ بھی رہتی ہیں۔ میری اسی تحریر کو اخبار کے منتظمین، کٹ اینڈ پیسٹ کرکے، چھاپ دیتے ہیں۔ کسی کاتب کی ضرورت ہی نہیں پڑتی۔ کالم چھپنے کے بعد میں، بڑی آسانی کے ساتھ، واٹس ایپ کے ذریعے یہی تحریر اپنے ان دوست احباب تک بھی پہنچا دیتا ہوں، جو یہ اخبار نہیں پڑھ پاتے۔ کسی سہولت کیش شاعر نے بالکل سچ کہا ہے کہ!
میں جو میسر تھا ہمیشہ اسے آسانی سے
وہ سمجھتا رہا بیکار سا انسان ہوں میں
ایپل کے iPhone کی مقبولیت کی سب سے بڑی وجہ ٹیکنالوجی نہیں بلکہ اس کا User Interface تھا۔ اسٹیو جابز نے اس ڈیزائین کی بنیاد رکھی تھی۔ ٹیکنالوجی زیادہ تر Bell Labs کی ایجادات پر مشتمل تھی۔ ساتھ ساتھ AT&T کے وسیع و عریض نیٹ ورک اور اس کے تجربہ کار انجنئیرز نے، وائرلیس فونز کی دنیا میں انقلاب برپا کردیا تھا۔ آئی فون سے پہلے بلیک بیری اور نوکیا جیسی کمپنیاں بہت اچھے فون بنا رہی تھیں مگر ایپل کے آسان اور خوبصورت User Interface نے انہیں مات دے دی۔ مقابل کمپنیوں نے فوری طور پر ایپل کی نقل کی لیکن اِس وقت بھی آئی فون کے پاس امریکی مارکیٹ کا اٹھاون فیصد شیئر موجود ہے۔
میرا تجربہ رہا ہے کہ اکثر ٹیکنالوجی کے ماہرین بے حد مشکل پسند لوگ ہوتے ہیں۔ اسی وجہ سے وہ اپنی ایجادات کی پیشکش بھی کچھ اس انداز سے کرتے ہیں کہ کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی والا مصرعہ ان پر صادق آتا ہے۔ اس کے مقابلے میں مارکیٹنگ اور دیگر شعبہ جات کے لوگ صارفین کیلئے چیزوں کو آسان بنانا چاہتے ہیں۔ وہ شاید امجد اسلام امجد صاحب کے اس مشہور شعر کو کافی اہمیت دیتے ہیں۔
مانا نظر کے سامنے ہے بے شمار دھند
ہے دیکھنا کہ دھند کے اس پار کون ہے
آئی فون کے User Interface کے خالق نے بھی ٹیکنالوجی کی دھند کے اس پار دیکھا اور آج ساری دنیا کی آنکھیں بہت دور تک صاف صاف دیکھ سکتی ہیں۔ بہت سارے راز افشا ںہو رہے ہیں۔ ٹک ٹاک، یو ٹیوب، X اور فیس بک جیسے پلیٹ فارمز معرضِ وجود میں آچکے ہیں، جن کی وجہ سے یہ وسیع و عریض دنیا، ایک گلوبل ویلج بن چکی ہے۔ مولانا الطاف حسین حالی نے بالکل صحیح فرمایا تھا کہ
ہے جستجو کہ خوب سے ہے خوب تر کہاں
اب ٹھہرتی ہے دیکھئے جا کر نظر کہاں
٭٭٭