طالبان کو عقل و دانش کا مظاہرہ کرنا پڑیگا

0
125
حیدر علی
حیدر علی

ایسا معلوم ہورہا ہے کہ طالبان لوٹ کر کابل نہ آئے جیسے ساری دنیا فتح کرلی ہو۔ گذشتہ کل تک تو جو طالبان کو بھگوڑا گردانتے تھے آج وہ اُسے شیر دِل کے القاب سے نواز رہے ہیں۔ افغانی صحافی جنہیں امریکی حکومت کی جانب سے ہر ہفتے لفافہ ملا کرتا تھا وہ تو طالبان کو دنیا اعظم کیلئے انتہائی خطرناک قرار دیا تھا لیکن جب طالبان نے قندھار فتح کرلیا تو اُسی صحافی نے اپنے کالم کی یہ سرخی لگائی کہ طالبان کا سبز سورج مشرق سے طلوع ہوتا نظر آرہا ہے اور جب طالبان کابل کی جانب مارچ کرنا شروع کردیا تو اُسی صحافی نے یہ تحریر کیا کہ امریکی بھگوڑوں کا پیر اُکھڑنا شروع ہوگیا ہے اور اب وہ بروکلین جانے کیلئے سب وے کا میپ دیکھ رہے ہیں۔ بلا شبہ جب طالبان کابل پہنچے تھے تو اُن کا استقبال سرخ گلاب کے خوشبودار پھولوں سے کیا گیا تھا، لیکن بعض پشتوؤں نے محسوس کیا کہ بندے بھوکے معلوم ہوتے ہیں تو اُنہوں نے اپنے گھر سے روٹی اور سالن لاکر اُن کی تواضع شروع کردی۔ کچھ لوگوں نے طالبان کو یہ پیشکش کی کہ اُن کی قمیض اور شلوار بہت گندی معلوم ہوتی ہے ، وہ اُنکے لئے اُن کی لانڈری کر سکتے ہیں۔ طالبان کے کمانڈرز نے مجاہدوں کو سختی سے یہ منع کیا ہے کہ وہ مقامی لوگوں سے گفتگو نہ کرینگے اور اُن سے کسی چیز کا مطالبہ بھی نہیں کرینگے ، لیکن اگر کوئی شخص اُنہیں کچھ دے تو وہ اُسے قبول کر سکتے ہیں۔ اِسلئے بیشتر طالبان سے جب مقامی لوگ کچھ سوال کرتے ہیں تو وہ اپنی اُنگلی اٹھاکر آسمان کی جانب اشارہ کردیتے ہیں۔ ایک طالبان کو جب کابل کے ایک شہری نے یہ کہا کہ تم تو نرے احمق معلوم ہوتے ہوتو اُس نے بھی اُنگلی اٹھا کر آسمان کے جانب کردی۔ مطلب یہ کہ اُسے اﷲ تعالی ہی نے نرا احمق بنایا ہے۔ تاہم کابل کی ایک خاتون نے چند طالبان کو اپنے گھر کے برآمدے میں گذر اوقات کیلئے جگہ دے دی۔ اُن میں سے ایک طالبان نے چند دِن بعد اُن سے اِس خواہش کا اظہار کردیا کہ وہ اُن کی ذختر نیک سے شادی کا خواہشمند ہے۔ خاتون اُس پر سخت ناراض ہوئیں ، اور طالبان کو کہا کہ تمہیں بندوق چلانے کے علاوہ آتا ہی کیا ہے۔ میں تو چاہتی ہوں کہ میری بیٹی کی شادی کسی ڈاکٹر یا انجینئر سے ہو۔ متذکرہ طالبان نے جواب دیا کہ وہ بھی انجینئر ہے اور قندھار کے ٹیکنیکل کالج سے اُس نے سول انجینئر کا ڈپلومہ حاصل کیا ہے۔ خاتون نے کہا کہ ڈپلومہ جعلی بھی ہوسکتا ہے، لیکن پھر بھی میں تمہیں ایک موقع دے سکتی ہوں۔ تمہیں ہمارے چھ گھروں کی دیکھ بھال کا کام سنبھالنا ہوگا۔ غسلخانہ، چھت اور فرش کی مرمت کرنا پڑیگی۔ پلمبنگ اور الیکٹرک کے پرابلم کو بھی حل کرنا پڑیگا اور کرائے داروں سے کرایہ وصول کرنا پڑیگا۔ اگر کام کرنے میں تم نے ذرا برابر بھی کاہلیت کا مظاہرہ کیا تو میں تمہیں اٹھواکر گھر سے باہر پھینکوا دونگی۔ ” چشم ما روشن دِل ماشاد۔ ” طالبان نے جواب دیا۔لیکن مسئلہ تو صرف ایک طالبان کی ملازمت اور شادی کا حل ہوا ہے ، جبکہ افغانستان میں طالبان کی فوج کی تعداد ایک لاکھ کے لگ بھگ ہے اور پچاس ہزار اُن کے چمچے ہیں، بقول اُن کے رہنماؤں کے بیشتر طالبان پڑھنے لکھنے میں کوڑے ہیں اور اُنہیں صرف بندوق چلانے آتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اُن کے رہنماؤں نے طالبان کی تربیت کیلئے ایک جامع پروگرام ترتیب دیا ہے۔ اُس پروگرام کے تحت طالبان کو حجامت بنانے ، کپڑا سینے اور دھونے ، قالین کی انڈسٹری میں کام کرنے کی تربیت دی جائیگی۔ افغانستان کی بیشتر فیکٹریاں بند پڑیں ہیں۔ طالبان رہنماؤں کی اولین تر جیح اُن فیکٹریوں کو حرکت میں لانا ہے ۔ اِن تمام مقاصد کے حصول کیلئے افغانستان کی موجودہ حکومت کو کیش رقم کی ضرورت ہے۔
افغانستان حکومت کے 9 بلین ڈالر امریکہ کے بینکوں میں جمع ہیں، جنہیں امریکی حکومت نے یا تو منجمد کر دیا ہے یا اُنکے نکالنے پر پابندیاں عائد کردیں ہیں۔ اُس رقم کی ادائیگی پر امریکی حکومت کی شرائط ایسی ہی ہیں جیسے وہ آقا ؤں اور افغانی پھر غلام اور امریکی حکومت جو بھی حکم صادر کرے وہ کسی چوں چراں کے اُسے بجا لائیں۔
پاکستان کے طول و عرض میں طالبان کی فتح کا ردعمل ملا جلا ہے بلکہ ویسا ہی ہے جیسے سیلاب کا ریلا اُن کے گھر کے ڈیوڑھی تک آپہنچا ہے ، اور کسی بھی وقت اُن کے ڈرائینگ روم میں داخل ہوکر اُنکے صوفہ اور قیمتی ٹی وی کو ناکارہ کرسکتا ہے۔ اِسلئے باشعور لوگوں کیلئے یہ ایک تشویشناک امر ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان گذشتہ 20 سال سے طالبان کے حملے کی زد میں ہے۔ کبھی یہ حملہ تہذیبی اور سماجی اور کبھی جارحانہ ہوتا ہے۔ کراچی میں طالبان کھلے عام برقعہ نا پہننے والی خواتین کو دھمکیوں سے نوازتے ہیں، مرد حضرات جو نیکر پہنتے ہیں یا داڑھی نہیں رکھتے وہ طالبان کی ہدف کا نشانہ بنتے ہیں۔ کراچی سے مری جانیوالے افراد تو جن کی داڑھیاں نہیں ہوتیں وہ توکھلے عام طالبان کی دھمکیوں سے خوفزدہ ہوچکے ہیں اور اب وہ بجائے مری جانے کے دبئی ، مالدیپ یا ہانگ کانگ وکیشن کیلئے جانا شروع کردیا ہے۔ اِن حالات میں حکومت کس طرح غیر ملکیوں کو پاکستان تفریح کیلئے آنے کی دعوت دے سکتی ہے۔ بلاشبہ بہت سارے حضرات نے حالات سے سمجھوتہ کرنا شروع کردیا ہے، جن کی ماؤں نے کبھی حجاب نہیں پہنا تھا، اُن کی بیویاں برقعہ پہننا شروع کردیں ہیں۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا پاکستانیوں اور طالبان سے سرد جنگ صرف حجاب اور برقعہ تک ہی محدود رہ سکتی ہے یا اِسکا دائرہ وسیع ہوکر ایک لامحدود بڑے پیمانے کی جنگ میں تبدیل ہوسکتا ہے۔ ویسے بھی بڑی طاقتیں پاکستان کو افغانستا ن کا ساتھ دینے کا مزا چکھانے کیلئے بے چینی سے انتظار کر رہی ہیں۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here