PAGH کے ہونیوالے انتخابات

0
233
شمیم سیّد
شمیم سیّد

پورے امریکہ میں ہیوسٹن وہ واحد شہر ہے جہاں پاکستانی کمیونٹی بہت فعال ہے اور یہی وجہ ہے کہ یہاں پاکستان سنٹر بھی قائم ہے۔غالباً پچھلے30یا35سالوں سے یہ ایسوسی ایشن کام کر رہی ہے لیکن اس کے باوجود گروپ بندی کا شکار ہے۔مسرور جاوید خان، غلام محمد بمبئے والا خالد خان مرحوم اور تسلیم صدیقی کے زمانوں میں یہ ایسوسی ایشن باوجود مخالفت کے اپنا کام کرتی رہی۔میاں نذیر کا دور خاموشی کا دور تھا اور اس ایسوسی ایشن پر ہی دبائو رہتا تھا کہ کب یہ ختم ہوجائیگی۔پاکستان سنٹر کی وجہ سے مشکلات تھیں کوئی مالی تعاون نہیں کر رہا تھا۔دوکانوں کے کرایوں سے خرچہ نکالے جارہے تھے جوکہ ناکافی تھے اس کے باوجود پاکستان سنٹر بکا نہیں پھر میاں نذیر جو اس وقت صدر تھے وہ چاہتے تو وہ ایک اور ٹرم کے لیے صدر بن جاتے کیونکہ کافی سالوں سے پی اے جی ایچ میں الیکشن نہیں ہو رہے تھے بلکہ سلیکشن ہو رہے تھے جو بھی زیادہ ممبرز بنا لیتا وہ الیکشن میں اپنے لوگ لے آتا ایسے موقع پر میاں صاحب نے ہیوسٹن کی ایک سیاسی شخصیت اور بزنس مین ہارون شیخ کو صدر بننے پر راضی کیا کیونکہ ہارون شیخ ایک آڈٹ کمپنی کے مالک بھی ہیں اور وہ پاکستان ایسوسی ایشن کے بارے میں تمام حساب کتاب جانتے تھے ۔انہوں نے پی اے جی ایچ کی صدارت قبول کرلی اور پاکستان ایسوسی ایشن کو آگے لے کر چلنے لگے اور آہستہ آہستہ حالات بہتر ہونے لگے اب ہارون شیخ بھی یہ چاہ رہے ہیں کہ پاکستان سنٹر کو بیچ کر ایک نئی جگہ نیا سنٹر بنایا جائے اس سلسلے میں وہ ایک ٹرسٹ بنانا چاہ رہے ہیں تاکہ پاکستان سنٹر کسی کی ذاتی ملکیت نہ بن جائے اور کمیونٹی کا پیسہ کمیونٹی کے پاس ہی رہے۔ایک بات جو میں کہہ رہا ہوں کہ ہماری کمیونٹی کو سب سے زیادہ نقصان نیویارک سے آنے والے لوگوں نے پہنچایا ہے اور ہماری کمیونٹی کو کبھی بھی ایک پلیٹ فارم پر نہیں رہنے دیاپہلے تو دو ہی گروپ تھے ایک سجاد برکی گروپ اور دوسرا مسرور جاوید گروپ جس کو پنجابی اور مہاجر گروپس کہنا بے جانہ ہوگا۔اب پچھلے ایک دو مہینے سے ایک نئی ہوا چلی ہے اور پی اے جی ایچ کے الیکشن میں پھر دو گروپس آمنے سامنے آرہے ہیں۔سجاد برکی کی گروپ نے تو کافی عرصہ سے بی اے جی ایچ سے دوری اختیار کی ہوئی ہے ،ہماری ہیوسٹن کی سیاست میں پھر سے باہر کے لوگ آرہے ہیں اور جس کو دیکھو وہ یوٹیوب پر نئی نئی کہانیاں بیان کر رہا ہے آجکل دیکھا یہی جارہا ہے کہ جب ہر طرف سے ناکامی کا منہ دیکھنا پڑھ جائے تو پیٹ تو پالنا ہی ہے پڑتا ہے یوٹیوب کھول لیتے ہیں اور ایک چینل پر جس کے بارے میں چاہتے ہیں بولنا شروع کردیتے ہیں۔بھائی آپ جہاں رہ رہے ہیں وہاں کے بارے میں آپ اپنے دل کی بھڑاس نکال لیں ہیوسٹن کے بارے میں صرف لوگوں سے سن سن کر کہانیاں بیان نہ کریں اور پھر سے تفرقہ نہ پھلائیں آج آپ جن لوگوں کے بارے میں تعُصب کی بات کر رہے ہیں ،اسی لوگوں میں آپ کا اٹھنا بیٹھنا تھا اس وقت آپ کے پاس اخبار تھا اور وہی لوگ آپ کو اچھے لگے تھے اب آپ انکو متعصب قرار دے رہے ہیں اور آخر ہیوسٹن کی پی اے جی ایچ میں ایسی کون سی سونے کی کان نکل آئی ہے کہ آپکو ہیوسٹن کے دورے پر آنا پڑا۔اس وقت ہیوسٹن کے چند لوگوں نے یہ سوچ کر کہ ہماری کمیونٹی کی یہی ایک ایسی ایسوسی ایشن ہے اگر اس کو فحال کیا جائے تو اس کی بڑی بات ہوگی اور ہماری کمیونٹی متحد ہوجائیگی۔لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ابھی سے وہی ذہنیت کہ کراچی والے متحدہ گروپ قرار دیئے جارہے ہیں۔بابرغوری کو بھی گھسیٹا جارہا ہے کیونکہ ان کا نام ہے اس لیے ان کے نام پر سیاست چمکے گی۔بابر غوری نے ہمیشہ لوگوں کو ملانے کی بات کی ہے اس بات سے دونوں گروپس متفق ہونگے۔یہ بھی سننے میں آرہا ہے کہ لوگ پاکستان سنٹر کے بارے میں بہت سنجیدہ ہیں اور ایک بزنس مین کا نام آرہا ہے کہ وہ3لاکھ ڈالر دے رہے ہیں اور پاکستان ایسوسی ایشن کے لیے1.3ملین فنڈ اکٹھا کرینگے۔قیاس آرائیاں ہیں کہ ہیوسٹن کے بزنس مین اور سماجی شخصیت سلمان رزاقی دوسرے گروپ کی قیادت کر رہے ہیںاور ایک گروپ کی قیادت ہیوسٹن کے مشہور پولیس آفیسر مظفر صدیقی الیکشن میں کھڑے ہو رہے ہیں۔اس دفعہ جو الیکشن ہو رہے ہیں وہ شاید چار نشستوں پر ہو رہے ہیں جن میں نائب صدر کی پوسٹ اہمیت کی حامل ہے۔اور مظفر صدیقی اس سیٹ کے لیے بہترین امیدوار ہیں کیونکہ پاکستانی کمیونٹی میں مظفر صدیقی بہت زیادہ مقبول ہیں اور میں نہیں سمجھتا کہ سلمان رزاقی نائب صدر کے لیے مظفر صدیقی کے سامنے آئیں گے۔دوسرے امیدوار جو ہمیں وہ ڈاکٹر یعقوب شیخ ہیں جن کے بارے میں یہ خیال کیا جارہا ہے کہ ہارون شیخ نے ڈاکٹر یعقوب شیخ کو راضی کیا ہے کہ وہ نائب صدر بن جائے پھر بعد میں وہ صدر بنا دیئے جائینگے۔لیکن اب مسئلہ سلیکشن کا نہیں ہے الیکشن کا ہے اور ڈاکٹر یعقوب شیخ شاید الیکشن نہ لڑیں اب دیکھنا یہ ہے کہ کون کون میدان میں آتا ہے۔میری ہی گزارش ہے کہ باہر کے لوگوں کی باتوں میں نہ آئیں اور آپس میں بیٹھ کر فیصلہ کریں کہ کیا کرنا ہے دونوں گروپس میں ایسے لوگ ہیں جو بیٹھ کر فیصلہ کرسکتے ہیں۔مظفر صدیقی نے تو شاید یہ آفر دی ہے کہ اگر پی اے جی ایچ کے اکاونٹ میں اگر3لاکھ ڈالر جمع کروا دیئے جاتے ہیں۔تو وہ دستبردار ہونے کو تیار ہیں یہ خبر اڑتی ہوئی آئی ہے۔اس وقت تو ممبر شب بنانے کی دوڑ لگی ہوئی ہے اور جو ذرائع بناتے ہیں لوگ جوق درجوق ممبر شپ لے رہے ہیں لگتا ہے کہ اس دفعہ پھر سے پی اے جی ایچ میں رونقیں واپس آنے والی ہیں۔پرانے گروپس مظفر صدیقی کو سپورٹ کر رہے ہیں۔یہ الیکشن ری پبلکن یا ڈیموکریٹک کا نہیں ہے یہ خالصتاً پاکستانی کمیونٹی کا الیکشن ہے اس لیے جو بھی فیصلہ کیا جائے وہ کمیونٹی کی بہتری کے لیے کیا جائے۔
اور اب یہ شہر تقسیم نہیں ہوگا چاہے یوٹیوب چینل کتنا ہی زہر کیوں نہ گھولیں ہماری کمیونٹی کو شعور آگیا ہے اور ایسے لوگوں کو ہماری کمیونٹی رد کر دے گی جو نفاق پیدا کرنا چاہتے ہیں اللہ تعالیٰ ہماری کمیونٹی میں یکجہتی پیدا فرمائے۔(آمین)۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here