محترم قارئین! دولت تسکین دولت حسن کی طرح عطائے روحانی ہے۔ اس کا کوئی فارمولا نہیں ،سکون قلب جیسا کہ نام سے ظاہر ہے، قلب کی ایک حالت ہے۔ ایسی حالت جس میں اضطراب نہ ہو۔ سکون کی چند اضطراب ہے۔ اضطراب خواہش سے پیدا ہوتا ہے کسی چیز ہو حاصل کرنے کی خواہش یا کسی شے سے نجات کی خواہش ہی باعث ہے قراری ہے۔ خواہش دنیا ہو یا خواہش عقبیٰ، انسان کو ضرور بے چین کریگی۔ یاد رہے کہ سکون کی خواہش بذات خود ایک اضطراب ہے۔ سکون خواہش سے نہیں، نصیب سے ملتا ہے جسے سکون قلب حاصل ہوجائے، اس کی زندگی میں نہ شکوہ رہتا ہے نہ تقاضا، وہ نہ خدا کا گلہ مخلوق کے سامنے کرتا ہے، نہ مخلوق کی شکایت کے سامنے، وہ نہ زندگی سے غافل ہوتا ہے۔ نہ موت سے وہ ہر حال میں راضی رہتا ہے۔ پرسکون انسان مقام صبر کو بھی مقام شکر بنا دیتا ہے۔ آج کے دور میں سکون قلب اس لئے مشکل ہوتا جارہا ہے کہ زندگی کے تقاضوں اور مذہب کے تقاضوں میں فرق آگیا ہے۔ زمین کا مسافر سمجھ نہیں سکتا کہ آسمان سے احکام کیوں نازل ہوتے ہیں۔ زندگی کی مسرتوں میں آخرت کا خوف سکون سے محروم کردیتا ہے۔ سکون کی خاطر سفر کرنے والا انسان سکون حاصل نہیں کرسکتا۔ سفر میں سکون کہاں؟ سکون کی تلاش اپنے حالات، اپنے ماحول اور اپنی زندگی سے بیزاری کا اعلان ہے۔ انسان جس حال میں بے سکون ہوا ہے اسے اس حال میں سکون چاہئے لیکن وہ غلطی سے کسی اور حال میں سکون دریافت کرنا چاہتا ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ اسے سکون نہیں ملتا۔ آج کا انسان سکون کی خاطر آسمانوں کے دروازے کھولنے چلا گیا ہے، لیکن اس سے دل کا دروازہ نہیں کھلتا۔ من کی چنتا دور نہ ہوتو سکون نہیں مل سکتا۔ آج کا سب سے بڑا المیہ خود گریزی ہے اور سکون کے لئے خود شناسی اور خود آگہی درکار ہے ایک دفعہ ایک آدمی جسے اپنے گھر میں سکون نہیں ملتا تھا۔ اپنی بیوی سے کہنے لگا”بیگم! میں چاہتا ہوں کہ سکون قلب کی خاطر مقدس سفر اختیار کروں۔ بیوی سمجھ گئی کہ اس کا خاوند اس سے بیزار ہے، بولی” اتنے نیک سفر میں دیر کیا ہے، چلئے میں بھی اس نیک کام کی تتلاش میں آپ کے ہمراہ چلتی ہوں۔”خاوند کے کچھ دیر سوچا، بولا ”چلو جانے دو میرے نصیب میں سکون نہیں میں اسی جہنم میں گزرا فکات کر لوں گا، بات دراصل اتنی سی ہے کہ سکون قلب اپنے موجودہ حالات میں ہی مل سکتا ہے جسے اپنے دیس میں سکون نہیں ملا۔اسے پردیس میں کیا اطمینان حاصل ہوگا۔ جیسے اپنے گھر میں رحت نہ ملے۔ اسی اور کون سے گھر میں فرحت ملے گی۔ سکون قلب اپنی زندگی ہے۔ انداز فکر بھی اپنا ہے تمنا کا سفر وشت ہے اماں کا سفر ہے سکون کا سفر اپنی ذات کا سفر ہے۔ اپنے باطن کا سفر ہے سکون کے مسافر گھر ہی میں منزلیں طے کرتے ہیں۔ سکون والا انسان اپنے دل میں ہی وہ روشن نقطہ دریافت کر لیتا ہے۔ جس کی ضیاء اسے نور بصیرت عطا کرکے سکون بخشتی ہے۔ جس انسان کی اپنے ماحول سے اپنے آپ سے صلح ہو وہ پر سکون رہے گا برائی کو نیکی سے رفع کرنے والا پرسکون رہے گا، اپنی زندگی کو کسی کا احسان سمجھنے والا پٍُرسکون رہتا ہے۔ سکون حاصل کرنے کا سب سے آسان طریقہ یہ ہے کہ انسان سکون کے حصول کی تمنا چھوڑ کر دوسروں کو سکون پہنچانے کی کوشش کرے۔ سکون دینے والے کو ہی سکون ملتا ہے کسی کا سکون برباد کرنے والا سکون سے محروم رہتا ہے۔ اگر فرض اور شوق یکجا ہوجائیں تو زندگی پرسکون ہوجاتی ہے کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ دولت سے سکون ملتا ہے لیکن دولت اور مال نے کبھی کسی کو سکون نہیں دیا۔ بادشاہوں نے بادشاہی چھوڑ کر درویشی تو قبول کی ہے لیکن کسی درویش نے درویشی چھوڑ کر بادشاہی قبول نہیں کی۔ مال جمع کرنے والے اور مال گننے والے پر عذاب ہے وہ مال جو خدا کی راہ میں خرچ کیا جائے۔ باعث اطمینان ہوسکتا ہے نفرت، کینہ، بغض، جذبہ انتقام، حسد، لالچ اور جسم پرستی سکون قلب کے دشمن ہیں سکون والا انسان دوسروں کی زندگی اور خوشی کا احترام کرتا ہے۔ وہ علم حاصل کرتا ہے، جاہلوں کی خدمت کے لئے دولت کماتا ہے۔ غریبوں کی مدد کیلئے وہ گناہ سے نفرت کرتا ہے۔ گنہگاروں سے نہیں، وہ ان کی بخشش کی دعا کرتا ہے، خود جاگتا ہے اور سونے والوں کی سلامتی کی تمنا کرتا ہے وہ مرتبہ حاصل کرتا ہے۔ مظلوم اور محروم کی اعانت کے لئے وہ اپنے گھر اور دل کے دروازے کسی پر بند نہیں کرتا۔ وہ اپنے مرتبے سے کسی کو ڈراتا نہیں وہ مخلوق کو خالق کا عمل سمجھ کر اس کی عزت کرتا ہے۔ امانت میں خیانت کرنے والا سکون نہیں پا سکتا۔ فطرت سے حاصل ہونے والی پہلی امانت معصومیت ہے کسی کا اعتماد امانت ہے۔ مُنصف کا منصب امانت ہے خیانت کرنے والا سکون نہ پائے گا۔ الفاظ امانت ہیں ابہام پیدا کرنے والا سکون نہ پائے گا۔ دوسروں کا حق غصب کرنے والا زندگی بھر سکون نہ پا سکے گا۔ اللہ تعالیٰ ہمیں حقائق کو سمجھ کر عمل کی توفیق عطا فرمائے(آمین)۔
٭٭٭٭
- Article
- مفسر قرآن حضرت مولانا مفتی لیاقت علی خطیب مرکزی سنی رضوی جامع مسجد جرسی سٹی، نیو جرسی یو ایس اے