ممتاز صحافی یاسر صابری کی وساطت سے محترمہ تمثیلہ لطیف کی شاعری کی PDF موصول ہوئی، کتاب کے دیباچہ لکھنے کی فرمائش ہوئی، گزشتہ ایک ماہ میں ایک شاعر اور ایک شاعر کی کتابوں پر دیباچہ لکھنے سے معذرت کرتے ہوئے انہیں لکھا کہ ابھی اساتذہ کے کلام کا مطالعہ جاری رکھیں اور فکرِ سخن میں سر نہ کھپائیں کیونکہ!
اک عمر چاہیے کہ گوارا ہو نیشِ عشق
رکھی ہے آج لذت زخمِ جگر کہاں
بعض لوگ بے وزن شاعری کرتے ہیں ان کیلئے یہی بہتر ہے کہ وہ بے وزن شعر کہہ کر ”شاعر بیوزن” بننے کی بجائے نثر لکھیں یا آزاد شاعری لکھ کر ”بند شاعری” سے آزاد ہو جائیں۔ آزاد شاعری کا مطلب ہے کہ یہ شاعر بند شاعری سے آزاد ہے۔ میں نے جب تمثیلہ لطیف کی شاعری کو پڑھا تو مجھے خوشگوار حیرت ہوئی کیونکہ ان کی شاعری پُر کیف بھی ہے اور پُر لطف بھی۔ ان کی کتاب کا عنوان ”کیف غم” ہے۔ غمِ عشق میں جو کیف ہے وہ کسی اور غم میں نہیں۔ مجھے میرے پہلے شعری مجموعہ ”متاع درد” کی ایک غزل کا مطلع یاد آگیا!
غم ترا اس لیے گوارا ہے
میٹھا میٹھا ہے، پیارا پیارا ہے
تمثیلہ لطیف کے اب تک دو شعری مجموعے شائع ہو چکے ہیں۔ کوئی ہمسفر نہیں، اور دشت میں دیپ جلے”۔ آپ لکھتی ہیں ”آبلہ پائی مقتدر بنی تو کچھ مہرباں شجر ہائے سایہ دار بھی راہ میں آئے”،آپ کا شعری مجموعہ ”کوئی ہمسفر نہیں” ببانگ دہل اعلان کر رہا ہے کہ شاعر کو زندگی کے سفر میں وہ ہمسفر نہیں ملا جو ہمدم و ہمدرد بھی ہو۔ یوں تو عمومی ہمسفر راہ کے کنکروں کی طرح بکھرے ملتے ہیں مگر حقیقی ہمسفر گوہر نایاب ہوتا ہے۔ البتہ وقتی طور پر سفر میں شجر سایہ دار کا ملنا بھی غنیمت ہے اگر سفر جاری رہے۔ بقول الطاف حسین حالی!
سفر ہے شرط، مسافر نواز بہتیرے
ہزار ہا شجر سایہ دار راہ میں ہے
تمثیلہ لطیف کی شاعری کا اسلوب سادہ و سلیس ہے۔ طرز بیاں گویا شُغل تپاں، دل میں ہجر کا درد اور لبوں، پہ آہ سرد۔ آپ کی اکثر غزلیں چھوٹی بحر میں ہیں۔ کلام نہایت مترنم ہے۔ اشعار میں شدّت، حدّت اور جدّت ہے۔ رومانوی، روحانی، سیاسی اور سماجی مسائل پر طبع آزمائی کی ہے۔ عشق مجازی سے عشق حقیقی کا سفر ہے۔ کہتی ہیں!
کیا کہوں تیری اُلفت میں کیا مل گیا
دل لگی دل لگی میں خدا مل گیا
اس شعر کی جتنی تعریف کی جائے وہ کم ہے
ایک غزل میں کہتی ہیں
میری پلکوں پہ جو اشکوں کی طرح ہوتا ہے
عرق عصیاں تو دعائوں کی طرح ہوتا ہے
”عرق عصیاں” کی ترکیب لاجواب ہے۔ علامہ اقبال کا مشہور شعر ہے!
موتی سمجھ کے شان کریمی نے چُن لیے
قطرے جو تھے مرے عرق انفعال کے
”عرق عصیاں” اور ‘عرق افعال” کی تراکیب طلسم جہان معنی ہیں۔ طہارت دروں کی غماز ہیں، ایمان و ایقان کی آواز ہیں۔ بربط دل کاساز ہیں۔ گو آپ کی شاعری کا محور ”غم جاناں” ہے مگر گاہے گاہے ”غم دوراں” اور ”غم انساں” بھی جلوہ گر ہے۔ کہتی ہیں!
مفلس کے حق میں آپ کا انصاف خُوب ہے
یعنی کہ مارڈالو، مگر آسرا نہ دو
یہ شعر ہمارے عدالتی نظام کے چہرے پر ایک زور دار طمانچہ ہے، جس نظام میں مظلوم عوام یہ کہتے نظر آئیں”۔ خدا تھانہ اور کچہری سے محفوظ رکھے۔ تفو برتو اے چرخ گرداں تفو۔
اس نظام زور و زر اور عالم جبر و شر کیخلاف فیض احمد فیض نے کہا تھا!
مٹ جائو گی مخلوق تو انصاف کروگے
منصف ہو تو اب حشر اٹھا کیوں نہیں دیتے
تمثیلہ لطیف کے اشعار میں بھی آزادی اور انقلاب کا پیام جا بجا ملتا ہے کہتی ہیں!
اظہار حق کیا جو سرِ محفل خرو
بازی گر ان وقت کے چہرے اُتر گئے
اظہار حق ہر کس و ناکس کے بس کی بات نہیں۔ بقول علامہ اقبال!
کہتا ہوں وہی بات سمجھتا ہوں جسے حق
نے آبلہ مسجد ہوں، نہ تہذیب کا فرزند
حق بات جس نے کی وہ جب مقام منصور حلّاج پر پہنچا تو اس نے سر مستی میں انا الحق کا نعرہ بلند کر دیا اور سُولی چڑھ گیا۔ تمثیلہ لطیف بھی اس بے وفا اور بے ضمیر معاشرے مین ضمیر کی سُولی پر لٹک رہی ہیں۔
ان کے دل کا درد ان کے شعروں میں ڈھل گیا ہے۔ آپ کی بحر طویل میں بھی چند غزلیں ہیں جو اردو ادب کا شاہکار ہیں۔ فارسی شاعری میں امیر خسرو، حافظ شرازی اور بیدل دہلوی اور اردو میں میر تقی میر، علامہ اقبال اور فیض احمد فیض کی مُترنم غزلیات و بے مثال و لاجواب ہیں۔ تمثیلہ لطیف کی بحر طویل میں غزلیات غنائیت و موسیقیت کی شہکار ہیں۔ ان کی ایک غزل کے دو شعر سنیے
یہ ہم نے مانا ضرورتیں اپنی بڑھ گئی ہیں جہاں میں لیکن!
یہ کون کہتا ہے دل کی تختی سے نام تیرا مٹا ہوا ہے
وہ میری آنکھوں میں جھانکتا تو اداس چہرہ دکھائی دیتا
تپش تو ہجراں کی میں ہی جانوں، نہ جانے کیوں، وہ جلا ہوا ہے
ضرورت کا تعلق شکم اور محبت کا تعلق دل سے ہے، مرزا غالب کہتے ہیں!
گو میں رہا رہین ستم ہائے روزگار
لیکن ترے خیال سے غافل نہیں رہا
جبکہ فیض احمد فیض کہتے ہیں
دنیا نے تیری یاد سے بیگانہ نہ کردیا
تجھ سے بھی دلفریب ہیں غم روزگار کے
معاملہ شکم یعنی ”غم جہاں” کا ہو یا معاملہ دل یعنی غم جاناں کا ہو تمثیلہ لطیف کی شاعری میں ہر دو ذکر موجود ہے۔میں وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ تمثیلہ لطیف کا یہ شعری سفر منزل مقصود کی طرف رواں دواں ہے اور ان کی درد انگیز اور معنی خیز شاعری سے تشنگان ادب سیراب ہوتے رہیں گے۔ این دعا ازمن واز جملہ جہان آمین باد۔
٭٭٭