کسانوں کی پہیہ جام ہڑتال ختم، ’مسئلے کا پرامن حل ڈھونڈا جائے

0
105

نئی دہلی(پاکستان نیوز) انڈیا کسانوں کی ملک بھر میں زرعی اصلاحات کے خلاف تین گھنٹے کے لیے پہیہ جام ’چکا جام‘ ہڑتال ختم ہو گئی ہے۔ انڈین وقت کے مطابق دوپہر 12سے تین بجے تک ہڑتال کی گئی اور شاہراہوں کو بند کیا گیا۔ ہڑتال کے موقع پر دہلی میں انتہائی سخت سکیورٹی کے انتظامات کیے گئے۔ مقامی میڈیا رپورٹس کے مطابق 50 ہزار سے زیادہ سکیورٹی اہلکار تعینات کیے گئے۔ خبررساں ادارے اے این آئی کے مطابق انڈین کسان یونین کے رہنما راکیش ٹکیت نے کہا تھا کہ اترپردیش، اتراکھنڈ اور دہلی میں کوئی سڑک جام نہیں کیا جائے گا اس کے علاوہ پورے ملک میں سڑکیں بند کی جائیں گی۔ دہلی کے نواح میں چکا جام نہ کرنے کی وجہ انھوں نے یہ بتائی ہے کہ کبھی بھی ان لوگوں کو بات چیت کے لیے بلایا جا سکتا ہے۔ ادھر اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے دفتر نے انڈین حکومت سے اپیل کی کہ وہ ’زیادہ سے زیادہ تحمل‘ کا مظاہرہ کرے۔ کسانوں کا ماننا ہے کہ یہ قوانین نجی کمپنیوں کو فائدہ پہنچائیں گے۔ کسانوں کا احتجاج مجموعی طور پر پر امن رہا ہے لیکن 26 جنوری کو ہونے والی ٹریکٹر ریلی میں پولیس اور کسانوں کے درمیان جھڑپ ہوئی۔ اس کے بعد حکومت نے دہلی کے کئی علاقوں میں موبائل انٹرنیٹ سروس بند کر دی اور کسانوں کے دہلی میں دوبارہ داخلے کو روکنے کے لیے بڑی بڑی رکاوٹیں کھڑی کیں۔ اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق کے دفتر نے جمعے کو ایک ٹویٹ پوسٹ کی جس میں لکھا تھا کہ ’پرامن احتجاج اور آزادی رائے کا آن لائن اور آف لائن تحفظ کیا جا نا چاہیے۔‘ ’یہ بہت اہم ہے کہ انسانی حقوق کے دائرے میں رہتے ہوئے مسئلے کا پرامن حل ڈھونڈا جائے۔‘ کسانوں کی تحریک کو بین الاقوامی سطح پر حمایت حاصل ہے۔ چند روز قبل بین الاقوامی پاپ سٹار ریحانہ نے کہا تھا کہ لوگ اس کے بارے میں بات کیوں نہیں کر رہے ہیں تو اس پر انڈیا نے سخت موقف کا اظہار کیا تھا اور کہا تھا کہ یہ قوانین پارلیمان میں بحث و مباحثے کے بعد پاس ہوئے ہیں۔ انڈین نڑاد امریکہ کی نائب صدر کملا ہیرس کی بھتیجی اور وکیل مینا ہیرس نے اپنے خلاف ہونے والے مظاہرے کی ایک تصویر شیئر کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ ان مظاہروں سے خاموش نہیں ہو سکیں گی۔ انھوں نے کہا کہ ’جمعرات کو میں نے انڈیا میں کسانوں کے حقوق کی حمایت میں آواز اٹھائی تھی اور دیکھیں اس کا رد عمل۔‘ انھوں نے مزید کہا کہ وہ اس سے خوفزدہ نہیں ہوں گی اور نہ ہی خاموش بیٹھیں گی۔ انھوں نے متواتر کئی ٹویٹس کیے اور حالیہ ٹویٹ میں انھوں نے لکھا ’یہ صرف زرعی پالیسی کے لیے نہیں ہے۔ یہ بولنے والی مذہبی اقلیت پر ظلم وستم ہے۔ یہ پولیس کا تشدد ہے، پرتشدد قوم پرستی ہے اور مزدور کے حقوق پر حملہ ہے۔ یہ عالمی استبداد ہے۔ ہمیں یہ نہ بتائیں کہ یہ ہمارا کام نہیں ہے۔ یہ سب ہمارے مسائل ہیں۔‘

 

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here