ٹرانس جینڈر ایکٹ!!!

0
85
شبیر گُل

مضمرات اور نتائج، شرعی تناظر میں
ڈاکٹر عبیدالرحمن محسن نے ایک مضمون میں اس بے حیائی کا مکمل احاطہ کیا ہے تاکہ عوام الناس کو اس بیہودگی کا اندازہ ہو کہ انسانی معاشرت میں یہ عمل بہت قبیح ہے۔سو کالڈ لبرل حمایت کے بعد منہ چھپاتے پھر رہے ہیں۔پارلیمنٹ میں جن لوگوں نے پاس کیا ہے ۔ عبرتناک اور دردناک سزا کے مستحق ٹھہریں گے ۔کیونکہ یہ قرآن کے خلاف بغاوت ہے۔ *ٹرانس جینڈر سے کیا مراد ہے ؟* ٹرانس جینڈر انگریزی زبان کے دو کلمات trans اور gender کا مجموعہ ہے، ٹرانس trans کا معنی ہے تبدیل کرنا اور gender سے مراد ہے جنس، گویا ٹرانس جینڈر پرسن، transgender person سیوہ مرد یا عورت مراد ہیں جنہیں اللہ تعالی نے مرد یا عورت پیدا کیالیکن وہ اللہ کے فیصلے پر ناخوش ہیں اور اپنی پیدائشی جنس تبدیل کرکے مرد سے عورت یا عورت سے مرد بننا چاہتے ہیں۔ ان میں سے بعض ہارمون تھراپی یا سرجری وغیرہ کروا جسمانی خد وخال بدل لیتے ہیں اور بعض اپنی طرز گفتگو، لباس، عادات وغیرہ تبدیل کرکے اپنی پسند کے مطابق جنس کا اظہارgender expression کرتے ہیں۔پاکستانی پارلیمنٹ نے 2018 میں خواجہ سرا اور خنثی کی آڑ میں اس غیر انسانی رویے کو قانونی تحفظ فراہم کرتے ہوئے transgender personsRight protection act منظور کیا ہے ۔ہمارے علم کے مطابق یہ ایکٹ سراسر غیر اسلامی، اور غیر انسانی ہے۔ یہ ایکٹ کن وجوہات کی بنا پر قرآن وسنت سے متصادم ہے اور اس میں کیا معاشرتی قباحتیں پائی جاتی ہیں، اس تحریر میں یہی پہلو واضح کرنا مقصود ہے۔اللہ تعالی نے انسانی نسل کی بقا کے لئے، انسانوں کو دو جنسوں میں تقسیم کیا ہے۔ مردوں کی جسمانی ساخت، نفسیات،جنسی ضروریات کئی حوالوں سے عورتوں سے یکسر مختلف ہیں۔ ارشاد باری تعالی ہے:و انہ خلق الزوجینِ الذکر و الانثی۔ مِن نطف اِذا تمنی۔ اور یہ کہ اسی نے پیدا فرمائیں دونوں قسمیں نر اور مادہ۔ ایک نطفے سے، جب وہ ٹپکا یا جاتا ہے۔سور النجم : آیت 45۔ 46، اس آیت مبارکہ سے معلوم ہوتا ہے کہ مرد و عورت کی تعیین بالکل ابتدائی مرحلے میں رحم مادر میں ہی ہوجاتی ہے۔ اسی کے مطابق اعضا تشکیل پاتے ہیں اور بلوغت کے مرحلے میں وہ جنسی تعین مزید نمایاں ہوجاتا ہے۔ انسان اپنی تخلیق خود نہیں کرتا، نہ ہی انسان اپنے لیے والدین، رنگ، نسل، جنس کا انتخاب کرتا ہے، یہ سب کچھ خالق کائنات کی مرضی سے ہوتا ہے، انسانوں کے عمومی مصالح اور عظیم ترین حکمتوں کے تحت اللہ تعالی جسے چاہتا ہے بیٹے دیتا ہے اور جسے چاہے بیٹیاں عطا کرتا ہے۔ ارشاد ہے : للہ ملک السموتِ و الارضِ یخلق ما یشآ یہب لِمن یشآاِناثاو یہب لِمن یشآ الذکور سورہ ذاریات،آیت 49} آسمانوں اور زمین کی سلطنت اللہ تعالی ہی کے لئے ہے ، وہ جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے جس کو چاہتا ہے بیٹیاں دیتا ہے جسے چاہتا ہے بیٹے دیتا ہے ۔ اس آیت سے یہ بات بھی واضح ہے، کہ کسے مذکر (male) بنانا ہے اور کسے منث( female) ، یہ بھی رب کریم کی حکمتوں پر موقوف ہوتا ہے۔ دین اسلام ایسے معاملات میں بالخصوص جو انسان کے دائرہ اختیار سے باہر ہیں، اپنے رب کی رضا پر راضی رہنے کا درس دیتا ہے، اس کے برعکس ٹرانس جینڈر پرسن اللہ تعالی کی تقسیم پر ناراض ہوتا ہے۔ اپنے اختیارات سے تجاوز کرتے ہوئے اللہ تعالی کی تخلیق میں مداخلت کرتا ہے۔ اور یہ ایکٹ ایسے افراد کی حوصلہ شکنی کرنے کی بجائے حوصلہ افزائی کرتا ہے۔بظاہر یہ بات کچھ لوگوں کو شاید معمولی محسوس ہو لیکن یاد رکھیے، اللہ تعالی کی بنائی کائنات کے ساتھ انسان کے تعلق کی تین صورتیں ہیں
. 1.پہلی صورت تسخیر
یعنی کائنات کے راز دریافت کرنا اور اسے اپنے فائدے کے لیے استعمال کرنا، یہ صورت مطلوب ہے،
2.اصلاح وعلاج، تخلیق کی بعض صورتوں میں کسی حکمت ومصلحت کے تحت کہیں فطری نقص یا کمی بیشی ہوتی ہے۔ایسی صورت میں اصلاح، علاج، تصحیح، تبدیلی کہیں جائز ہے اور کہیں مستحسن ، جیسے ختنے کرانا، زیر ناف بالوں کی صفائی، ناخن تراشنا، ان چیزوں سے مقصد تخلیق پر کچھ اثر نہیں پڑتا،3.تغییر، یعنی تخلیق الہی سے ایسی چھیڑ چھاڑ جس سے رب کریم کی بنائی ہوئی شکل بھی بگاڑ دی جائے اور مقصد تخیلق بھی بری طرح متاثر ہو، کسی صورت جائز نہیں۔جو لوگ بھی اس شیطنت پر چل نکلے کہیں رک نہ پائے، نہ ان کی طبیعت کو قرار ملا، نہ روح کو سکون،مغرب نے اس شیطانی راہ پر چل کر کہاں سکون پایا ہے؟
مرد و عورت کی مشابہت، پھر یکسانیت، پھر جنس کی تبدیلی اور اب اپنی نوع ہی تبدیل کرنے کے درپے ہیں، اب تو مغرب بالخصوص امریکا میں ایسا طبقہ بھی وجود میں آچکا ہے، جو خود کو انسان نہیں، جانور کہتا ہے۔ ایسے لوگوں کو Otherkin کہا جاتا ہے۔ اب تو ان دو ٹانگوں والے جانوروں کی ایک پوری کمیونٹی وجود میں آچکی ہے۔یہ خود کو انسان ماننے سے انکاری ہیں۔ ان میں سے کچھ خود کو کتا، کچھ بلی، کچھ لومڑی اور بعض بھیڑیا کہتے ہیں اور حرکتیں بھی ایسی ہی کرتے ہیں۔ سوشل میڈیا پر ان کے کئی پیجز ہیں، جن میں اپنے حیوانی تجربات اپ لوڈ کرتے ہیں۔خالق کائنات سے جنگ کرکے انسان اشرف المخلوقات سے سفل سافلین تک کا سفر کر چکا ہے۔ 2اسی وجہ سے شریعت میں اللہ تعالی کی تخلیق کو بگاڑنا سخت ناپسندیدہ عمل ہے ، ایسا اقدام گناہ کبیرہ ہے ، قابل لعنت ہے اور شیطانی ایجنڈے کی تکمیل ہے۔ ایسے گھنانے کردار کو قانونی تحفظ فراہم کرنا گناہ کی پشت پناہی میں آتا ہے۔
اللہ تعالی نے جب شیطان کو راندہ درگاہ تو اس نے جو ایجنڈا پیش کیا اور اللہ تعالی نے اس پر جو تبصرہ کیا ہے درج ذیل آیت مبارکہ میں ملاحظہ فرمائیں، شیطان نے کہا :و لاضِلنہم و لامنِینہم و لامرنہم فلیبتِکن اذان الانعامِ و لامرنہم فلیغیِرن خلق اللہِ و من یتخِذِ الشیطن ولِیا مِن دونِ اللہِ فقد خسِر خسرانا مبِینا سورہ انعام، آیت اور انہیں راہ سے بہکاتا رہوں گا اور باطل اُمیدیں دلاتا رہوں گا اور انہیں سکھائوں گا کہ جانوروں کے کان چیر دیں اور ان سے کہوں گا کہ اللہ تعالی کی بنائی ہوئی صورت کو بگاڑ دیں ، سنو! جو شخص اللہ کو چھوڑ کر شیطان کو اپنا رفیق بنائے گا وہ صریح نقصان میں ڈوبے گا ۔ کیا اس آیت مبارکہ کے ہوتے ہوئے کوئی مسلم ریاست رحمان سے دشمنی اور شیطان سے دوستی کرنے کی جسارت کرتے ہوئے اپنا نقصان کرسکتی ہے؟بالخصوص تخلیق میں ایسا بگاڑ کہ جس سے مقصد تخلیق ہی باقی نہ رہے، ممنوع تغییر کی بدترین شکل ہے اور ٹرانس جینڈر میں یہ بگاڑ بدرجہ اتم موجود ہے۔
مردوں کے جنسی اعضا، پیشاب کا راستہ، داڑھی، مونچھ، احتلام کی کیفیت، ان کے مردانہ پن کی نمایاں علامات ہیںجبکہ خواتین کے مخصوص جنسی، اعضا، پیشاب کا راستہ ،چھاتی کا ابھار، حیض، حمل، ولادت ان کی نسوانیت کی پہچان ہیں۔قرآن مجید کی متعدد آیات کے مطابق بنیادی طور پر انسانوں کی یہ دو ہی مستقل جنسیں ہیں،مکمل مرد کو صرف اس کے اندرونی احساس کی بنیاد پر عورت ڈکلیر کرنا، یا کسی عورت کو مرد ڈکلئیر کرنا، واضح اور صریح جھوٹ ہے اور جھوٹ کو قانونی تحفظ دیا جاتا ہے یا اس کا سد باب کیا جاتا ہے؟ کسی ذی شعور پر اس کا جواب مخفی نہیں ہے۔
جھوٹ کے بارے میں وراد تمام وعیدیں اس غیر اخلاقی ایکٹ پر صادق آتی ہیں۔
4جھوٹ کے ساتھ ساتھ یہ دھوکہ، اور فراڈ بھی ہے، دھوکہ باز کو روکا جاتا ہے یا اسے سپورٹ کیا جاتا ہے؟ہمارے دین میں تو روزمرہ کی معمولی اشیا میں ملاوٹ کرنا اور دھوکا دینا جائز نہیں، اکثر فقہا کے نزدیک بڑی عمر کا آدمی سفید بالوں کو سیاہ رنگ نہیں کرسکتا تاکہ معاشرے کو اس کی حقیقی عمر کے بارے میں مغالطہ نہ ہو۔ جو دین اس قدر حقیقت پسند اور فطرت سے قریب ہے اس میں اتنے بڑے فراڈ کی گنجائش کیسے ممکن ہے کہ ایک عورت، راتوں رات محض اپنے اندرونی احساس کی بنا پر مرد بن جائے، اور دوسری طرف ایک مرد ٹرانس وومن ہوجائے ؟اس ایکٹ سے بے حیائی کے دروازے کھلیں گے ، شرم وحیا، حجاب کے احکام، مردوعورت کے اختلاط سے اجتناب کی تمام شرعی احکامات کی دھجیاں بکھیر دی گئی ہیں۔جس کے نتیجے میں پاکستانی خواتین بالکل غیر محفوظ اور شر پسندوں کے لیے تر نوالہ ثابت ہوسکتی ہیں۔ اس ایکٹ کے چیپٹر تھری، پوائنٹ فور میں ٹرانس جینڈر کو سفری سہولیات، رہائش وغیرہ کے بلا امتیاز حقوق دیے گئے ہیں۔
ایک مرد جس نے اپنے آپ کو اندرونی احساس کی بنا پر قانونا عورت کی شناخت حاصل کرلی ہے، اب وہ شناختی کارڈ کے مطابق عورت ہے، جبکہ حقیقتا وہ مرد ہے۔شناختی کارڈ اور اس ایکٹ کے مطابق وہ گرلز ہاسٹل میں ہماری بیٹیوں کے ساتھ رہائش اختیار کرسکتا ہے، ان کے واش رومز میں بلا روک ٹوک جاسکتا ہے، شادی ہال میں خواتین کی طرف بیٹھ سکتا ہے۔ جبکہ یہ تمام شرمناک حرکتیں قابل مذمت ہیں اور خلاف شریعت، نہ ہمارا دین اس کی اجازت دیتا ہے اور نہ ہی ہماری ثقافت۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یام والدخول عل النِساِ،صحیح بخار ،5232،یعنی اے مردو! تم غیر محرم عورتوں کے پاس جانے سے اجتناب کرو۔6اس ایکٹ کی رو سے ہم جنس پرستی کے دروازے چوپٹ کھول دیے گئے ہیں، اس ایکٹ کے نہ صرف یہ کہ ہم جنس پرستی کوئی جرم نہیں رہا، بلکہ ہم جنس پرست دیگر افراد کی طرح قابل تکریم ہیں، جب کہ قرآن مجید کی رو سے ہم جنس پرستی کبیرہ گناہ ہے اور اس فحاشی میں مبتلا قوم لوط پر پتھروں کی بارش نازل کی گئی۔
اس ایکٹ کے چیپٹر ٹو، میں درج ہے
((1۔ایک ٹرانس جینڈر کو اپنی جِنسی / صنفی شِناخت اس شِناخت کے مطابق درج کروانے کا حق ہوگا جو صنفی / جِنسی شِناخت وہ خود کو تصور کرتا ہے۔
2۔ایک ٹرانس جینڈر اپنے آپ کو سب سیکشن ون کے تحت اپنی تصور کردہ شِناخت یعنی self perceived identity کے مطابق تمام نادرا یا دیگر حکومتی اِداروں میں درج کروا سکتا ہے۔ ))
اس “رعایت” سے فائدہ اٹھاتے ہوئے بالفعل ہزاروں مرد عورتیں بن چکی ہیں۔ اور ہزاروں عورتیں مرد ڈکلئر ہوچکی ہیں۔اب وہ قانونی عورتیں جو حقیقتا مرد ہیں، کسی دوسرے مرد سے شادی رچا سکتی ہیں، کیونکہ شناختی کارڈ کے مطابق وہ عورتیں ہیں، اس طرح کی شادی در حقیقت ہم جنس پرستی اور قوم لوط والے گناہ پر مبنی ہوگی۔در حقیقت ٹرانس جینڈر کا لفظ ہی ہم جنس پرستی کی عالمی تنظیم ایل جی بی ٹی کا خاص وضع کردہ ہے ( L، یعنی لیزبینlesbian, ہم جنس پرست عورت،G یعنی gayہم جنس پرست مرد، B یعنی bisexual , مرد و عورت دونوں سے تعلق رکھنے والا، T یعنی transgender ، یعنی مرد سے عورت بن کر، یا عورت سے مرد بن کر ہم جنس پرستی کرنے والا۔یو این او کے مطابق یہ سب مختلف جنسی رجحانات رکھنے والے قابل احترام انسان ہیں، جبکہ ہمارے دین کے مطابق یہ سب لوگ انسانی تہذیب کے لیے ننگ وعار اور قابل سزا مجرم ہیں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم لوگ جسے قوم لوط کا عمل ( اغلام بازی ) کرتے ہوئے پا تو فاعل اور مفعول ( بدفعلی کرنے اور کرانے والے ) دونوں کو قتل کر دو۔
(جامع ترمذی، حدیث 1456)۔ایسی حرکات کرنے والے پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین دفعہ لعنت فرمائی۔ (مسند احمد 2915)۔
یہ ایکٹ انسانیت کے لئے اجتماعی خود کشی کے مترادف ہے۔ایک مرد جو اپنی صنفی شناخت بطور عورت کروا کر ٹرانس وومن، بن چکا ہے، اور اس بنیاد پر کسی دوسرے حقیقی مرد سے شادی رچا چکا ہے، کیا یہ دونوں نسل انسانی کی افزائش اور نشوونما بھی کرسکیں گے؟اس لحاظ سے یہ ایکٹ خود انسانیت کی بقا کے لئے زہر قاتل ہے۔اللہ تعالی نے مرد و عورت کی تقسیم صرف ظاہری جسامت اور محض فزیکل وجود کی خاطر ہی نہیں رکھی، بلکہ ایک عظیم حکمت اور خدمت انسانیت کے بڑے اہداف بھی ان دونوں اصناف کے ساتھ وابستہ ہیں، ایک مرد بطور باپ اپنا رول ادا کرتا ہے اور عورت بطور ماں اپنا سب کچھ اولاد پر نچھاور کرتی ہے۔
اسی تناظر میں درج ذیل حدیث مبارکہ میں غور کیجیے، جناب عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کہتے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا : لم راع ومسئول عن رعِیتِہِ ، فالِمام راع وہو مسئول عن رعِیتِہِ ، والرجل فِی ہلِہِ راع وہو مسئول عن رعِیتِہِ ، والمر فِی بیتِ زوجِہا راعِی وہِی مسئول عن رعِیتِہا ، والخادِم فِی مالِ سیِدِہِ راع وہو مسئول عن رعِیتِہِ۔ (صحیح بخاری ،حدیث 839)
تم میں سے ہر فرد ایک طرح کا ذمہ دار ہے اور اس کی رعیت کے بارے میں اس سے سوال ہو گا۔ پس بادشاہ حاکم ہی ہے اور اس کی رعیت کے بارے میں اس سے سوال ہو گا۔ ہر انسان اپنے گھر کا نگران ہے اور اس سے اس کی رعیت کے بارے میں سوال ہو گا۔ عورت اپنے شوہر کے گھر کی نگران ہے اور اس سے اس کی رعیت کے بارے میں سوال ہو گا۔ خادم اپنے آقا کے مال کا نگران ہے اور اس سے اس کی رعیت کے بارے میں سوال ہو گا۔عورت جب صنف نازک ہونے کے باوجود ٹرانس مین بنتی ہے تو در حقیقت وہ اپنی ذمہ داریوں سے فرار کی راہ اختیار کرتی ہے،یہی حال مردی جنس تبدیل کرکے عورت بننے والے ٹرانس وومن کا ہے۔ایسے ٹرانس جینڈر افراد جب خود اپنے فرائض سے راہ فرار اختیار کرکے لعنت کے مستحق ہورہے ہیں، تو وہ اپنے اسی معاشرے سے اپنے حقوق کس منہ سے مانگتے ہیں؟ ایسے افراد معاشرے کے مجرم اور غدار ہوتے ہیں، اسلامی معاشرے میں ان کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔
اسی لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے افراد کو معاشرے میں بودوباش کے لائق نہیں سمجھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طرز عمل کے حامل افراد کو گھروں سے باہر نکالنے کا حکم دیا۔
جناب ابن عباس رضی اللہ عنہما کا بیان ہے :
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مخنث مردوں پر اور مردوں کی چال چلن اختیار کرنے والی عورتوں پر لعنت بھیجی اور فرمایا کہ ان زنانہ بننے والے مردوں کو اپنے گھروں سے باہر نکال دو۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فلاں کو نکالا تھا اور عمر رضی اللہ عنہ نے فلاں کو نکالا تھا۔
صحیح بخاری، حدیث 5886.
معاشرتی ذمہ داریاں نبھانے کے لیے مرد و عورت کا اپنیدائرہ کار اور فرائض کو سمجھنا بھی ضروری ہے اور اللہ تعالی کی طرف سے تفویض کردہ جنس پر راضی رہنا بھی ضروری ہے۔ اس لیے ہمارے دین میں جنس کو بدلنا تو بہت دور کی بات ہے ، محض جنس مخالف کی مشابہت اختیار کرنا بھی جائز نہیں، کیونکہ مردوں کا عورتوں سے تشبہ اختیار کرنا یا عورتوں کا مردوں سے مشابہت اپنانا اس بات کی علامت ہے کہ ایسے افراد نہ اپنی جنس پر راضی ہیں اور نہ ہی اس جنس سے متعلقہ فرائض وواجبات ادا کرنا چاہتے ہیں، اسی بنا پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان مردوں پر لعنت بھیجی جو عورتوں جیسا چال چلن اختیار کریں اور ان عورتوں پر لعنت بھیجی جو مردوں جیسا چال چلن اختیار کریں۔(صحیح بخاری 5885).
اسلام کے ہاں بنیادی انسانی حقوق میں یہ چیز شامل ہے کہ دنیا میں آنے والے ہر نومولود کو معلوم ہو کہ اس کا باپ کون ہے؟ اس بنیادی ترین حق کے انسان کی نفسیات پر گہرے اثرات مرتب ہوتے ہیں، اور اسی حق کی ضمانت دینے کے لیے نکاح کا رشتہ ہوتا ہے۔ اسی حق کے تحفظ کے لئے زنا،کو حرام قرار دیا گیا ہے۔
ٹرانس جینڈر افراد اپنی بدترین خباثت کے ذریعے بچوں سے یہ حق بھی چھینتے ہیں۔
آپ ذرا تصور تو کیجیے اولا ہم جنس پرست دنیا میں بچوں کی پیدائش اور نسل انسانی کی افزائش میں رکاوٹ ہیں، ثانیا اگر دو چار بچوں کا باپ حقیقی مرد، ٹرانس وومن بن جاتا ہے، تو بچوں کے نسب کا کیا بنے گا؟ ان کو یہ حق کون دے گا۔
چند منحرف، مسخ شدہ فطرت رکھنے والے خبثا کی شہوت پسندی کی خاطر تحفظ نسب جیسے عظیم مقصد کو پس پشت ڈالنا آخر کہاں کی دانش مندی ہے؟!
ارشاد باری تعالی ہے
و اللہ جعل لکم مِن انفسِکم ازواجا و جعل لکم مِن ازواجِکم بنِین و حفد و رزقکم مِن الطیِبتِ افبِالباطِلِ یمِنون و بِنِعمتِ اللہِ ہم یکفرون سورہ نحل، آیت اللہ تعالی نے تمہارے لئے تم میں سے ہی تمہاری بیویاں پیدا کیں اور تمہاری بیویوں سے تمہارے لئیتمہارے بیٹے اور پوتے پیدا کئے اور تمہیں اچھی اچھی چیزیں کھانے کو دیں ۔ کیا پھر بھی لوگ باطل پر ایمان لائیں گے؟ اور اللہ تعالی کی نعمتوں کی ناشکری کریں گے؟ہم تو حیران و پریشان ہیں کہ انسانی تمدن کے اس بدیہی مسئلے میں بھی کیا اتنے دلائل دینے کی ضرورت ہے۔
اگر کوئی نابینا کہے کہ میں اپنے آپ کو بینا محسوس کرتا ہوں تو کیا ہم اس کے احساس کی بنیاد اپنے مشاہدے اور زمینی حقائق کو جھٹلا دیں گے۔
اگر کوئی زرگر اپنے احساس کی بنا پر آرٹیفیشل زیور کو حقیقی گولڈ باور کرانے پر ادھار کھائے بیٹھا ہو تو کیا ہم مان جائیں گے؟
قرآن مجید کی رو سے اصل مسئلہ صرف اور صرف خواہش پرستی اور اتباع ہوی ہے۔
آج کا نام نہاد ترقی یافتہ انسان اپنی خواہشات کا ایسا غلام ہوا ہے کہ اس کی عقل پر خواہشات نفس کے دبیز پردے پڑ چکے ہیں، یہ یو این او کے گماشتے، یہ LGBT کے مریض ایسی اخلاقی گراوٹ کا شکار ہوچکے ہیں کہ اپنی خواہشات کی تسکین کے لیے جانوروں سے بھی بدتر سطح پر اتر آئے ہیں، ایسے لوگوں کا نفسیاتی تجزیہ کرتے ہوئے قرآن مجید دو ٹوک کہتا ہے :
افریت منِ اتخذ اِلہہ ہوہ و اضلہ اللہ علی عِلم و ختم علی سمعِہ و قلبِہ و جعل علی بصرِہ غِشو فمن یہدِیہِ مِن بعدِ اللہِ افلا تذکرون الجاثی ، کیا آپ نے اسے بھی دیکھا؟ جس نے اپنی خواہش نفس کو اپنا معبود بنا رکھا ہے اور باوجود سمجھ بوجھ کے اللہ نے اسے گمراہ کر دیا ہے اور اس کے کان اور دل پر مہر لگا دی ہے اور اس کی آنکھ پر بھی پردہ ڈال دیا ہے اب ایسے شخص کو اللہ کے بعد کون ہدایت دے سکتا ہے۔
انسانی تاریخ ایل جی بی ٹی پلس کے نام پر بے شرمی اور بے حیائی کی ان آخری حدوں کو چھو رہی ہے کہ المان والحفیظ۔
*ہماری ذمہ داریاں*
1.ٹرانس جینڈر ایکٹ ایسے مکروہ اور بھیانک قانون کا ہر سطح پر مکمل مسترد کرنا۔
2.ٹرانس جینڈر لفظ سے نفرت کرنا، کیونکہ یہ فطرت سلیمہ کے خلاف، حد درجہ غیر انسانی اور غیر اخلاقی رویے کی عکاسی کرتا ہے. یہ فطرت کامسخ ہے اور کچھ نہیں۔
3.ہر سطح پر اس کے خلاف آواز اٹھانا
4.یہ صرف اسلام پسندوں کا ہی مسئلہ نہیں انسانیت کی بقا کا مسئلہ ہے۔
5.بعض لوگ ٹرانس جینڈر سے مراد ناقص الخلقت پیدا ہونے والے خنثی افراد لیتے ہیں، یہ اس لفظ کے حقیقی مفہوم سے نا آشنائی ہے۔ اس مکروہ لفظ کے نام پر خنثی ( intersex) کوشامل کرنا اور اس کی آڑ ممسوخ الجنس کو تحفظ فراہم کرنا حق کے ساتھ باطل کو ملانے کی پرانی شیطانی چال ہے۔
6.خنثی(intersex), کئی حوالوں سے ہمارے معاشرے کا مظلوم طبقہ ہے، پیدائشی طور پر جنسی اعضا میں ایبنارمیلٹی، میں ان کا کوئی قصور نہیں۔
Khunsa right protection
یا اس طرح کے کسی واضح نام سے ان کے حق میں ایکٹ لایا جائے۔ جس میں انہیں جائز حقوقِ دیے جائیں۔ ان کے والدین کو کسی ضابطہ اخلاق کا پابند بنایا جائے۔ ان کے لیے ہماری شریعت میں پہلے سے ہی بہت ساری تفصیلات موجود ہیں، ان کے مطابق انہیں باعزت طور پر جینے کا حق دیا جائے۔
7.ہمارے معاشرے میں خواجہ سراں کی ایک اپنی دنیا آباد ہے۔ ان کا ایک پورا مافیا ہے، نئے بھرتی ہونے والے ٹین ایجرز کو پرانے خواجہ سرا، گرو، جب جہاں چاہتے ہیں بیچ ڈالتے ہیں، اور انسانیت کی تذلیل کرتے ہیں، اس مکروہ دھندے کے خلاف مثر ایکٹ لایا جائے۔
8.بعض خواجہ سراوں کے گرو، ٹین ایجرز مردانہ صفات رکھنے والے بچوں کے مردانہ اعضا کو ورغلا کر، یا نشہ دے کر کاٹ ڈالتے ہیں، ان خبثا کا احتساب کیا جائے۔9.الغرض جو پیدائشی طور پر خنثی ہیں، انہیں سپیشل بچوں کی طرح ڈیل کرتے ہوئے ہر جائز سہولت فراہم کی جائے، اور جو مکمل مرد و عورت اپنی مرضی اور خواہش پرستی کے تحت ٹرانس جینڈر بنے ہوئے ہیں، ان کا جسم فروشی کا دھندا بند کیا جائے اور شرعی سزائیں ان پر نافذ کی جائیں۔10 ٹرانس جینڈر ایکٹ ،میں ترمیم نہیں بلکہ اس کی تنسیخ اور متبادل ایکٹ کی ضرورت ہے، 11۔اس طرح کے خلاف شریعت قوانین کی مستقبل میں روک تھام کے لئے بھی اسلام پسند وکلا اور ججز کی مشاورت سے ایک مضبوط فورم قائم کرنے کی ضرورت ہے۔اللہ تعالی اس میدان میں کام کرنے والے سب احباب کی مدد فرمائے اور شیطانی فلسفوں سے اسلامیان پاکستان کی حفاظت فرمائے۔آمین
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here