قارئین ! عید میلاد البنی کی مبارکباد قبول ہو۔ 1444ہجری کا ماہ ربیع الاول امت مسلمہ کے لئے بڑے بڑے چیلنجزلے کر آیا ہے۔ ایک طرف ہم خوش ہیں کہ آمنہ کے لال کی تشریف آوری سے دنیا منور و معطر ہو گئی۔ جس شب حضور اکرم دنیا میں تشریف لائے تو ساری کائنات منور ہو گئی۔دوسری طرف فرقہ پرست قوتیں اُمت مسلمہ کو آپس میں لڑانے کی سازشیں کر رہی ہیں۔تیسری طرف ربیع الاول شریف آتے ہی گستاخان شان رسالت حضور پاک کی توہین اور عید میلاد النبیۖ کے خلاف فتویٰ بازیاں شروع کر دیتے ہیں ۔ آقا کریم کے ایام ولادت میں اللہ کو آپ کا واسطہ دے کر دعا کی جائے کہ کوویڈ 19 نیست و نابود ہو ، گستاخان شان رسالت کو قدرتی سزا ملے اور وحدت امت کی فضا بحال ہو۔ نیز یہ دعا ہر جلسہ جلوس یا آن لائن پروگرام میں کی جائے کہ فرقہ واریت کا ابدی خاتمہ ہو جائے۔ آپ کی مادر گرامی نے مکہ میں بیٹھ کر نور ولادت سرور کائنات کے ذریعے شام کے محلات کو دیکھا بلکہ اہلیانِ مکہ نے شام و عجم کے محلات دیکھے۔ جب حضور پیدا ہوئے تو جہاں جہاں کائنات عالم میں کوئی بت رکھا تھا وہ سرنگوں ہوگیا۔شہنشاہِ ایران کے محل کے کنگرے گر گئے۔ آتش کدہ فارس میں ہزاروں سال سے لگی آگ خود بخود بجھ گئی۔ شیطان کا داخلہ آسمانوں میں بند ہو گیا۔ وہ مکہ آیا تو اس نے دیکھا کہ آسمانی فرشتوں نے یتیم عبداللہ کے مولد کے اردگرد ایک نورانی زنجیر بنا رکھی ہے۔ حضور نے ولادت کے بعد عبادت خدا کی، کلمات شہادت ارسال فرمایا اور سجدہ الہی کیا۔ آپ کی تشریف آوری سے علم و حکمت کے دریا بہہ گئے۔تعصبات و جہل کے بت پاش پاش ہو گئے۔غلامی کی زنجیروں میں قید انسانیت ہمیشہ کے لئے آزاد ہو گئی۔ جس معاشرے میں عرب بیٹیوں کو زندہ درگور کر دیتے تھے۔ وہاں آپ کی نسل اکلوتی بیٹی سے چلی۔ ایک دوسرے کے خون کے پیاسوں میں مواخات قائم کی۔ مغرور معاشرے میں مساوات قائم فرمائی۔ظلم کے معاشرے کو آقا کریم نے عدل و انصاف سے بھر دیا۔ ظالموں کو درس انصاف دیا۔ بداخلاق معاشرے میں اخلاق محمدی کے دیپ جلادئیے۔تعصبات ختم کر کے محبتوں کے چراغ جلائے۔ انتقام پروروں کو عفو و درگذر کا درس دیا۔ اپنے خون کے پیاسوں سے صادق و امین کہلوایا۔ جھوٹ کو شکست دے کر سچ کی حکومت قائم کی۔ امیر و غریب کی تفریق کو مٹا دیا۔ حقوق کی حکمرانی قائم کی ۔ بے ذر کو بوذر بنایا۔ بے گھر کو عمار بنایا۔ مسلمان کو سلمان بنایا۔غریب بلال کو بیت المال کا خازن بنا دیا۔ نبی کریم نے عدل و انصاف کا وہ معاشرہ قائم کیا جس کی بنیادیں آج تک کوئی ہلا نہ سکا۔ تجارت کو فروغ دیا۔ تاجر کو حبیب اللہ کہا جانے لگا۔ جہاد بالنفس کے ذریعے انسان کو افضل مخلوق کا بھولا ہوا سبق یاد کرایا۔ آقا کریم کی ولادت کی یاد اس لئے بھی منانی چاہیئے کہ روز جمعہ اس لئے سید الایام ہے کہ اس روز حضرت آدم پیدا ہوئے۔ جب حضرت آدم کی ولادت کے دن عید قرار دی گئی۔ تو حضور انور کی ولادت کے روز کو عید کیسے نہیں مانا جائے گا۔لوگ اپنے بچوں کے ایام ولادت مناتے ہیں۔ جبکہ کائنات کے سید و سردار کے روز ولادت پر اعتراض کرتے ہیں۔یہ ناقابل فہم امر ہے۔ اللہ کریم نے سورہ بلد میں شہر مکہ کی قسم اس لئے کھائی ہے کہ حضور کی سکونت وہاں ہے اور پھر والد اور ماولد کی قسم کھائی ہے ۔ حضر ت ابراہیم نے جس پتھر پر کھڑے ہو کر حضور پاک کی ولادت کی دعا کی تھی۔ اسے مقام ابراہیم کے طور پر آج بھی کعبہ میں نصب ہے۔اسی پتھر پر کھڑے ہو کر پتھر کعبہ کی دیواروں کے لئے اٹھائے اسی پر کھڑے ہو کر اپنی ذریت و نسل سے ولادت کی دعا کی۔
ولادت مصطفی اتنی اہم ہے کہ کہ دعا والے پتھر کو سنبھال کے رکھا گیا ہے۔ اسی سے جواز عید میلاد البنی کا درس ملتا ہے۔ قرآن مجید میں سورہ مریم میں حضرت عیسی و یحی پر سلام کا ذکر ہے۔وہ بھی ولادت کے روز ، وفات کے روز اور بعثت کے روز یعنی بنی پرولادت کے روز اللہ کا سلام بھی ہے۔ اور نبی کا اپنا سلام بھی ۔ گویا ولادت نبی کے روز نبی پر سلام پڑھنا سنت الہی و نبوی ہے۔
اگر کوئی جلوس پر اعتراض کرے تو صفا و مروہ کی سعی اور احرام کے دوران عرفات ، مذدلفہ اور منی روانگی اور واپسی سے جواب دیا جا سکتا ہے۔ اور جلسے پر اعتراض کرے تو حج کے اجتماع سے جواب ممکن ہے۔اسلام میں نہ اجتماع منع ہے نہ جلوس نکالنے پر کوئی پابندی عائد ہے۔ اپنے اپنے طریقے سے خوشی کا اظہار ہوتا ہے۔ ویسے بھی جلوس والے فتح والے نکالتے ہیں شکست خوردہ تو جلوس نہیں نکالا کرتے ہیں۔ حضرت محمد مصطفی 48 ویں پشت آدم سے ہیں۔ آپ کے والد حضرت عبد اللہ دراز قامت نورانی چہرے والے بڑے خوبصورت تھے۔
حضور پاک کی ولادت سے ساوہ کے دریا میں پانی آیا۔ ساوہ کی کی نہر میں سیلاب آیا ۔مجوسیوں کے راہنماوں نے اس رات خواب میں دیکھا کہ طاقتور اونٹوں نے عربی گھوڑوں کو قتل کیا ہے اور دریائے دجلہ کے راستے ایران میں داخل ہوئے۔ اور دریائے دجلہ کے کناروں سے پانی بہہ گیا۔ پورے عالم میں بادشاہوں کی اقتدار والی تختیاں اپنی جگہ موجود نہ تھیں اور بادشاہ صبح کے وقت گونگے ہو گئے۔دنیا کے جادوگروں اور کا ہنوں کے کرتب ناکام ہو گئے۔حضرت عبدالمطلب نے اپنے پوتے کو ہاتھوں پر اٹھایا اور خانہ کعبہ میں جا کر بچے کی درازی عمر کی دعا کی۔
ابلیس نے ولادت مصطفی کی شب میں چیخ ماری اور سارے چیلوں کو جمع کیا کہ آج کوئی حادثہ ہونے والا ہے۔ جیسا عیسی کے آسمان پر جاتے وقت ہوا۔ کہا اس کی خبر لاو بالآخر وہ ناکام واپس آئے یہ بھیس بدل کر مکہ پہنچا اس نے جبرائیل سے پوچھا و جبرائیل نے بتایا آج عالمین کی رحمت نے آنکھ کھولی ہے۔آپ کی ولادت با سعادت سے قبل آپ کے والد وفات پا چکے تھے۔ گویا آپ یتیم پیدا ہوئے۔ آپ کی تربیت آپ کی والدہ ماجدہ آمنہ بنت وہب نے کی۔ جبکہ حضرت عبدا لمطلب آپ کے جد امجد11 سال تک آپ کی تربیت فرماتے رہے۔ اس کے بعد آپ کی تربیت حضرت ابو طالب اور حضرت فاطمہ بنت اسد کے سپرد ہو گئی۔
آقا کی مادر گرامی نے فرمایا جب میں حاملہ تھی تو میں نے سنا ایک منادی ندا دے رہا ہے کہ تم اس امت کے آقا و سردار سے حاملہ ہو۔ ولادت ہوتے ہی چہار سو روشنی پھیل گئی ۔ ولادت کے وقت غیب سے آواز آئی۔
تم کہو کہ ہر حاسد سے بچنے کے لئے خدا کی پناہ طلب ہے اور اس کا نام محمد رکھو۔ حضور اکرم کے میلاد کے جلسوں جلوسوں اجتماعات وغیرہ کے دوران سیرت النبی کا تذکرہ کرنا چاہئے۔ اور آپ کی روح کو خوش کرنے کا راز درود پڑھنے اور آپ کی سیرت پر چلنے پر مضمر ہے۔
عید میلاد النبی کے جلسے اور جلوسوں میں شرکت کرنے والوں کو مبارکباد پیش کرتا ہوں۔لنگر پاک کا اہتمام کرنے والوں، چراغاں کرنے والوں،نعتیں پڑھنے والوں، صدقے یا رسول اللہ کہنے والوں ، لبیک یا رسول اللہ والوں ، مرحبا مرحبا یا رسول اللہ اور جس سہانی گھڑی چمکا آمنہ کا لال اس سہانی ساعت پر لاکھوں سلام کہنے والوں کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں۔ مساجد و مراکز کی انتظامیہ سے درخواست گزار ہوں کہ شمع رسالت کے پروانوں کا بے حد خیال رکھیں۔ جلسے اور جلوسوں میں خواتین اور بچوں کو ضرور لے جائیں۔مساجد و مراکز،جلوس کے روٹس گھروں ، دفاتر اور گلی کوچوں کو سجائیں، شب میں چراغاں کا اہتمام کریں۔نئے کپڑے پہنیں ، عطر استعمال کریں۔ ایک دوسرے کو مبارکباد دیں۔علما و مشائخ،زعمائے ملت اپنے اپنے خطابات میں سیرت النبی پر روشنی ڈالیں۔شیعہ اور سنی اتحاد کا مظاہرہ ضرور کریں۔اللہ کریم دنیا بھر کے عاشقان رسول کو اپنی حفظ امان میں رکھے اور آقا کریم کے صدقے میں باقی ماندہ زندگی میں آسانیاں پیدا کرے۔
٭٭٭