کوہ پیمائی کا ایک خطرناک رحجان!!!

0
84
حیدر علی
حیدر علی

جوسٹ کوبش کو آیا ماؤنٹ ایورسٹ کی چوٹی سر کرنا ہے یا اُسکا ارادہ خودکشی کرنا مقصود ہے یا اور نہیں تو وہ کوہ پیمائی کی مہم جوئی میں انفرادی طور پر ایک تاریخ رقم کرنا چاہتا ہے. کوبش کے بارے میں یہ ساری آرا مہمل ہیں تو پھر اُسے کیا ضرورت پیش آگئی کہ موسم سرما کی اِس سخت سردی میں جب دوسرے کوہ پیما ماؤنٹ ایورسٹ کے قریب بھی جانا پسند نہیں کرتے وہ دنیا کی سب سے بلند ترین چوٹی کو سرکرنے کا عزم کیا ہوا ہے، اِس یخ بستہ سردی ، اِس طوفانی ہواؤں جس کی رفتار بعض اوقات 200 ایم پی ایچ تک پہنچ جاتی ہے اُسے اُس کی منزل تک پہنچنے کیلئے موت و زندگی کی جنگ لڑنے سے کم نہیں،اُس کے کُل سرمایہ حیات میں ایک بوسیدہ اور تار تار ہوا زرد رنگ کا ٹینٹ ، سنگلاخ پہاڑ سے لٹکتی ہوئی ایک 300 فٹ کی رسّی ، برف کے چٹخنے کی آواز یا نہیں تو چٹانوں سے لڑکھراتے ہوے پتھر کے تودے، اِسکے علاوہ ایک بیک پیک بھی جو جرمنی سے تعلق رکھنے والے 29 سالہ نوجوان کی ملکیت میں شامل ہیں،اُس کے قرب و جوار میں شاید ہی کسی اور مخلوق کی موجودگی کے آثار نظر آتے ہیں ماسوائے کوبش اور اُس کے 29,031 فٹ کی چوٹی کو سر کرنے کا خواب جو وہ اِس انتہائی سرد موسم میں تن و تنہااور بغیر آکسیجن سپلمنٹ کے سر کرنا چاہتا ہے،کوبش نے نیپال سے واٹس اپ پر یہ پیغام بھیجا ہے کہ آپ ذرا تصور کیجئے ، بیس کیمپ میں صرف ایک ٹینٹ موجود ہے ، جو اُسکا ہے، سرد ہوا کا جھونکا جو ہمالہ کی چوٹی کے قریب درجہ حرارت منفی80 ڈگری تک پہنچ جاتا ہے، کوبش کو اِس بات کی یقین نہیں کہ وہ اپنے ارادے میں کامیاب ہوجائیگا، لیکن یقینا وہ کوہ پیمائی کی تاریخ میں اپنا نقش پا ضرور چھوڑ ے گا.جب سے ایڈمنڈ ہلیری اور کوہ پیما کی مدد کرنے والاشیرپاٹینزنگ نورگے نے 1953 ء میں پہلی مرتبہ ماؤنٹ ایورسٹ کی چوٹی کو سر کیا تھا، اُس کے بعد سے اب تک 6000 افراد اِس مقصد میں کامیاب ہوچکے ہیں،کوبش نہ صرف ماؤنٹ ایورسٹ کی چوٹی کو بغیر آکسیجن کے سپلمنٹ کے سر کرنا چاہتا ہے ، بلکہ وہ چوٹی تک پہنچنے کیلئے ویسٹ ریج کے راستے کو اختیار کرنے کا خواہاں بھی ہے جو 2 عام راستوں کو جسے98 فیصدکوہ پیما چوٹی سر کرنے کیلئے استعمال کرتے ہیںسے زیادہ دشوار اور مختلف ہے۔اِن دنوں یہ ایک فیشن بن گیا ہے کہ مختلف کوہ پیما کسی بھی جدت کا سہارا لے کر یہ دعوی کر دیتے ہیں کہ وہ اِس پہلو سے ماؤنٹ ایورسٹ سر کرنے والوں میں اول ہیں، مثلا”کوئی کوہ پیما یہ دعوی کردیتا ہے کہ وہ دنیا کا عمر ترین شخص ہے جس نے ماؤنٹ ایورسٹ کو سر کیا، دوسرے شخص نے یہ دعوی کیا کہ وہ وہ واحد این ایف ایل کا کھلاڑی ہے جس نے ماؤنٹ ایورسٹ کو سرکیا ہے. کوہ پیماؤں کی ایک ٹولی نے تو بڑے فخر کے ساتھ یہ دعوی کیا کہ اُس کی ٹیم کے 15 ارکان نے ماؤنٹ ایورسٹ کے بیس کیمپ جو 26 ہزار فٹ پر واقع ہے وہاں باربی کیو پارٹی منعقد کی تھی. ماؤنٹ ایورسٹ کی چوٹی پر صرف شادی کا منعقد ہونا باقی ہے. دلہا دلہن تو دستیاب ہوسکتے ہیں لیکن کوئی پادری یا مجسٹریٹ نہیں۔
موسم کے اعتبار سے ماؤنٹ ایورسٹ اور کے ٹو جو دنیاکی دوسری بلند ترین چوٹی ہے ، اُس کا موازنہ کرنا کوہ پیماؤں کا ایک مشغلہ بن گیا ہے، پورجا جو ایک انتہائی تجربہ کار کوہ پیما ہیں اور جو فی الحال بحر منجمد جنوبی میں سیاحوں کی ایک ٹیم کی رہنمائی کر رہے ہیں، اُنکا کہنا ہے کہ کوہ پیما سمجھتے ہیں ماؤنٹ ایورسٹ کے ٹو سے کم سرد ہے تو یہ اُن کی غلط فہمی ہے، کیونکہ اگر کوہ پیماؤں کی تعداد کم ہو اور اُن کے ساتھ لوجسٹک کا سامان بھی کم ہو تو ماؤنٹ ایورسٹ جو بلند ترین ہے زیادہ خطرناک اور سرد ترین بن جاتا ہے۔
کوبش کے بارے میں ایک دوسرے کوہ پیما کا کہنا ہے کہ عام راستوں سے ہٹ کر ایک نئے راستے کا اختیار کرنااور موسم سرما میں ماؤنٹ ایورسٹ کی چوٹی تن و تنہا سر کرنے کا عزم ٹیکنکلی اعتبار سے چیلنجنگ ہے اگرچہ وہ بھی چوٹی سر کرنے بعد اُسی مقام پر کھڑا ہوگا جہاں دوسرے کوہ پیما ؤں کاپڑاؤ ہوتا ہے ، تاہم اُس کی اور دوسرے کوہ پیماؤں کی راہیں مختلف ہیں۔
کوبش کی ماؤنٹ ایورسٹ کی چوٹی کوبراستہ ویسٹ ریج کے سر کرنے کی یہ دوسری کوشش ہے، اِس سے قبل بھی وہ 2020 ء کے اوائل میں طبع آزمائی کی تھی.وہ کوہ ہمالہ کے 24,167 فٹ کی بلندی پر پہنچ کر واپس ہوگیا تھا. دونوں کوششوں میں اُس کے تجربات اُن کوہ پیماؤں سے جداگانہ تھے جو عام راستوں سے چوٹی سر کرنے کیلئے کمر بستہ ہوتے ہیں۔موسم بہار میں ماؤنٹ ایورسٹ گہما گہمی کا ایک مرکز بن جاتا ہے، 2021ء کے اُس موسم میں وہاں 1,000 کوہ پیما موجود تھے.ٹریفک بمپر سے بمپر ہوتی ہے۔ ایک کوہ پیما کے پیچھے دوسرا اپنی باری کا انتظار کرتا ہے تاکہ وہ سیڑھی کے ذریعہ پہاڑوں پر چڑھ سکے لیکن وہ کوہ پیما جو کسی کمرشل کمپنی کے مرہون منت ہوتے ہیں اُن کی خدمات کیلئے تمام ضروریات کی چیزیں حاضر ہوتیں ہیں، شیر پا اُنکے لئے سیڑھیاں نصب کرتا ہے، اچھے مقام پر اُنکا کیمپ لگاتا ہے ، اور اِس بات کی یقین دہانی کرتا ہے کہ وہ آکسیجن کا سپلمنٹ لگائے ہوے ہوں حتی کہ جب وہ سورہے ہوتے ہیں۔ ناشتہ اور کھانا اُنہیں اِس طرح دستیاب ہوتا ہے جیسے وہ کسی 4 اسٹار ہوٹل میں مقیم ہوں،جی ہاں !
اِس پیکج کی قیمت ایک لاکھ ڈالر سے زائد ہوتی ہے،کوبش بیچارے کو اِن سہولتوں سے کوئی دلچسپی بھی نہیں خواہ وہ اُسے مفت ہی کیوں نہ ملیں، اُس نے جس خطرناک راہوں کا اختیار کیا ہے، اُس نے جس طرح فطرت کی چیرہ دستیوں سے نبرد آزما ہونے کی سعی کی ہے اُسے سُن کر لوگوں کے رونگھٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here