اُنکی کی ناں میں ہاں پوشیدہ !!!

0
98
کامل احمر

1972سے9/11کے واقعہ تک ہم پاکستانی سیاست میں بدعنوان اور ملک دشمن اشرفیہ کی کرتوتوں سے واقف نہ تھے، وہاں کیا ہوا کہ جب ہماری آنکھ کھلی تو ملک کا شیرازہ بکھر رہا تھا۔ پنجاب میں جو ترقی ہوئی اور وہاں سڑکیں اور موٹرویز بنے۔ بسوں کا نظام چلایا گیا اور آخری واردات اورنج ٹرین تھی جو ملک کی معیشت پر بوجھ بنی، قرض کے پیسے کو نوازشریف کو مہنگے اور غیر ضروری پروجیکٹ پر لگایا گیا اور کھایا گیا۔ان سے جڑے عوام نے پروپیگنڈہ کیا ”کھاتا ہے تو کیا لگاتا بھی تو ہے” اور لوگوں نے اسے بڑھاوا دیا۔ یہ پنجاب کے عوام کا شعور تھا کہ بدعنوانی کو عام کیا عدلیہ سے لے کر پولیس اور گورنمنٹ آفیسرز میں چپڑاسی سے بڑے افسر تک نے رشوت کو عام کیا۔ پنجاب میں بہت سے محکموں میں رشوت عام تھی۔ ریلوے سے ایکسائز تک مثال یوں کہ اسٹیشن ماسٹر کی مدت ملازمت کو بھلا کر اچھے اسٹیشنوں کی بولی لگتی تھی۔ مثلاً اگر کسی کو میرپور خاص کا اسٹیشن چاہئے تو بولی پانچ لاکھ روپے تھی ورنہ اسے جھڈو ملتا تھا۔ یہ بات1950کی ہے اور اس کی تصدیق میرے والد صاحب کر چکے تھے یعنی پاکستان کے بننے کے صرف تین سال بعد۔
اب آپ کراچی آئیں جو دارالخلافہ تھا، وزارتیں بدلی جارہی تھیں سیاسی بحران تھا۔ لیکن زیادہ تر لوگ جو ہجرت کرکے آئے تھے پاکستان کے محکموں کو سنوار رہے تھے دن رات محنت کرکے ہر چیز ایک نظام کے تحت تھی اسکول کالج، اور ان میں داخلے البتہ کچھ محکمے بدنام تھے ان میں سرفہرست کسٹم، ایکسائز اورPWDتھا۔ اس وقت سندھی لوگوں کا آفیسز میں عمل دخل آٹے میں نمک کے برابر تھا اور جو پڑھے لکھے تھے اور دانشور لکھاری تھے وہ اپنا نام بنا چکے تھے کراچی میں علاقہ ہندوستان سے ہجرت کرنے والوں کے نام پر تھے۔ مثلاً ناظم آباد، پڑھے لکھے اور دانشور لوگوں کا گھر تھا۔ پیرالٰہی بخش کالونی، لیاقت آباد، ملیر، لانڈھی نئے نئے بس رہے تھے۔ کراچی کی آبادی میں چہل پہل بڑھ رہی تھی۔ ملک کے ہر حصے سے ہر زبان کا پاکستانی کراچی کا رخ کر رہا تھا۔ ایوب خان کا دور آچکا تھا اور آبادی کے مسئلے کا حل کورنگی کالونی بنا کر تلاش کر لیا گیا تھا پریس آزاد تھا۔ اور بڑے بڑے لکھاری منظر عام پر درخشان تھے ادب تخلیق ہو رہا تھا خدا کی بستی اسی دور میں وجود میں آیا تھا۔ ادھر قرة العین حیدر نے شہرہ آفاق ناول ”آگ کا دریا” لکھی تھی لیکن بازار میں آتے ہی پابندی عائد ہوگئی اور وہ (قرة العین حیدر) ہندوستان چلی گئیں ہمیشہ کے لئے باہر سے زور تھا جمہوریت لائی جائے جس کے تحت انتخابات ہوئے فاطمہ جناح کو ایوب خان کے مقابل لایا گیا مخالفین نے ایک کتیا کے گلے میں ہار ڈال کر گھمایا اور یہاں سے عوام کا شعور اور ضمیر بیماری سے مردہ ہونا شروع ہوگیا اور آج وہ مرچکا ہے اس میں ہمارے سیاستدانوں اور جنرلوں کا ہاتھ ہے جن پر امریکہ پلانٹ کر دیا ہے پالیسی بنا کر امریکہ اچھا بھی ہے اور برا بھی ہم نے بری باتوں کا انتخاب کیا جو دشمنوں کے لئے مفید تھیں۔
ایوب خان کو کسی نے ورغلایا یا انکی اپنی سوچ تھی کہ تاریخ ہمیشہ سرد علاقوں میں بنتی ہے اور اس کے تحت وہ دارالحکومت کراچی سے اٹھا کر سرد اسلام آباد لے گئے۔ اور آج ہم ملک کی ترقی دیکھ رہے ہیں ہر قدم اٹھانے سے پہلے ہمیں بیرونی طاقتوں سے مدد لینا پڑتی ہے دوسرا جنرل جس نے ملک کو دہشت گردی کی آگ میں جھونک دیا وہ ضیاء الحق تھا جس نے امریکہ دوستی میں انجانے میں افغانستان میں روسی مداخلت کے لئے جہادی فوج بنائی اور روس کو شکست دلوا کر تمغہ لینا چاہا لیکن وہ فضا برد کردیا گیا۔ اب جہادیوں کے لئے کوئی مصروفیات نہ تھی اور پھر دہشت گردی کا دور شروع ہوگیا جس میں کراچی کے بے روزگار ٹھکرائے ہوئے داخلوں سے محروم نوجوان شامل ہوگئے الطاف کے بینر تلے لیکن الطاف چونکہ ذہنی طور پر سطحی آدمی تھا۔ چند لوگوں کے لئے مالی فائدے کا باعث تو بنا لیکن غلط بیان دے دے کر اس نے مہاجروں کو پسماندگی کی طرف دھکیل دیا جو پہلے سے ہی تعصب کا شکار تھے اور بڑے صوبے کی زد میں تھے۔
دوسری جانب زرداری نے اپنے سالے مرتضیٰ بھٹو اور بینظیر بھٹو کو راستے سے ہٹا کر سندھ کے علاوہ پورے پاکستان کی معیشت پر قبضہ کرلیا ایک جھوٹی وصیت کے تحت وہ صدر بن گیا اپنے پانچ سالہ دور میں اسی نے بڑی خاموشی کام کیا اور بیرونی طاقتوں کے نمائندوں اور دلالوں پر ڈالرز کی بوجھاڑ کرکے تعلقات بنائے جس کے تحت آج بلاول وزیر خارجہ بن کر ملک ملک گھوم رہا ہے سنا ہے بیمار ہے لیکن سندھی قوم کا جو پہلے سے ہی مظلوم اور تعلیم کے میدان میں پیچھے تھی شعور چھین کر بدتہذیب بنا دیا اور اس کا ثبوت آج کا سندھی ہے جو کراچی کے ہر شعبہ میں دھاندلی کر رہا ہے جو جعلی ڈگریوں اور نقل کرکے پاس ہونے والوں میں اول نمبر پر ہے اور جنہوں نے ملازمتوں کو نیلام گھر سے خریدا ہے جس کی کرتا دھرتا زرداری کی بہن فریال ہے۔ صوبائی حکومت کی ساری ذمہ داریاں ان ہی نااہل اور راشی لوگوں نے سنبھال رکھی ہیں جو چلتے پھرتے، گھومتے، اٹھتے، بیٹھتے رشوت مانگتے ہیں۔ کراچی میں پچھلے کئی ماہ سے ایک اور بھونچال آیا ہوا ہے جو کہا جاتا ہے افغانیوں کا ہے کہ وہ منہ پر ڈھاٹے باندھے موٹرسائیکلوں پر سوار گلی گلی واردات کر رہے ہیں اور لوٹ کا مار تھانوں میں بانٹ رہے ہیں۔
حالیہ سیلاب نے سندھ کی انتظامیہ(حکومت) کی تیس سال سے زائد ناکارہ کارکردگی کی تصویر چھاپ دی ہے نجی ادارے اور باہر ملکوں کیNGO کے علاوہ عام فوجی ڈوبتے عوام کو مدد فراہم کر رہے ہیں کیا سندھی عوام زرداری کو اگر انتخاب ہوئے تو ووٹ دینگے۔ ہم کہتے ہیں بے جارے عوام کو شعور ہی کہاں ہے پہلے کی طرح سندھ میں بلامقابلہPPPآجائیگی اور آنے والے وقتوں میں پھر سے ایک سیلاب(طوفان) کا انتظار کرینگے لیکن سندھ حکومت پھر بھی کشتی نوح نہیں بنا پائے گی یہاں ہماری مراد ڈیم سے ہے۔
حال ہی میں باجوہ صاحب امریکہ یاترا سے واپس آئے ہیں آتے ہی انہوں نے دو اہم باتیں کہہ ڈالیں۔ وہ اپنی ملازمت میں توسیع نہیں لینگے اور نومبر میں عہدے سے دستبردار ہوجائینگے۔ اور دوسری بات جو وہ کئی دفعہ کہہ چکے ہیں کہ فوج کی ملک کے اندرونی معاملات میں کوئی مداخلت نہیں مطلب وہ سیاست میں نہیں ہمارا ان سے سوال ہے یہ بات تو وہ یہاں رہ کر بھی کرسکتے تھے لیکن انہوں نے کبھی اپنے شعور اور دماغ سے کام نہیں لیا(جو پہلے ہی سلب تھا) اور امریکہ کو ڈکٹیٹ کرانا پڑا۔ اور خیال رہے یہ سیاست ہے کہ انکے انکار میں اقرار ہے کہ وہ ایسا نہیں کرینگے رہا سوال سیاست میں حصہ نہ لینے کا تو کوئی بتائے۔ عمران خان کو رات کے اندھیرے میں کس نے کس کے حکم پر اٹھا پھینکا باجوہ صاحب ہوش کے ناخن لیں !پاکستان کا بچہ بچہ جان چکا ہے کہ تم چوروں کے ساتھ ہو ،اتنے بڑے بھاری بھر کم وجود میں بھوسہ بھرا ہوا ہے، اس پر کیا کہیں گے؟۔
٭٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here