اللہ ربِ العالمین کی خاص رحمت و عنایت سے ہی ہمیں رمضان کے مبارک ماہ میں داخلے کی توفیق نصیب ہوتی ہے۔ اس بابرکت مہینے کے اولین دنوں میں، اللہ کی بے پایاں رحمتوں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے، مغفرت کے حصول کے قابل ہو جاتے ہیں۔ رحمت و مغفرت کے روزوں میں، ایمان واحتساب کے ساتھ روزہ کی عظیم عبادت بجا لانے کے صدقے، ہم رمضان کے اس آخری حصے میں پہنچ پاتے ہیں، جب گنہگاروں کو جہنم سے نجات کا پروانہ جاری کیا جاتا ہے۔ کاش ہم بھی اللہ تعالی کی اس نظرِ خاص کے قابل ہو جائیں۔ آمین۔
رمضان کے اس تیسرے حصے میں لیل القدر کی وہ عظیم الشان رات شامل ہے، جس کے فضائل، اس مختصر سے مضمون میں سمٹائے نہیں جاسکتے۔ اس رات میں کئے گئے اعمال کا اجر ایک ہزار مہینے میں کی گئی عبادات سے زیادہ ملتا ہے۔ قرآن مجید کا نزول بھی رمضان کی اسی بابرکت رات میں ہوا تھا۔ہم نے اِس (قرآن )کو شبِ قدر میں نازل کیا ہے۔ اور تم کیا جانو کہ شبِ قدر کیا ہے ؟ شبِ قدر ہزار مہینوں سے زیادہ بہتر ہے۔ فرشتے اور روح اس میں اپنے رب کے اِذن سے ہر حکم لے کر اترتے ہیں۔ وہ رات سراسر سلامتی ہے طلوعِ فجر تک۔ شبِ قدر ہمیں جہنم سے نجات کا بہترین موقع فراہم کرتی ہے۔ آخری عشرے کی طاق راتوں میں اس مبارک رات کی تلاش کیلئے سنت اور نفلی اعتکاف بھی کیا جاتا ہے۔ ہمارے شاعر حضرات نے بھی اس رات کے حوالے سے بہت سا دعائیہ کلام کہا ہے۔ ارشاد عرشی دعا گو ہیں کہ:
نور ہی نور بنا دے میرے مولا مجھ کو
مرے آنگن میں اتر آئے قمر آج کی رات
تری جانب سے ملے کوئی اشارہ پیارے
کاش آجائے تسلی کی خبر آج کی رات
مری تقدیر سنور جائے جو رحمت ہو تری
لیلتہ القدر میسر ہو اگر آج کی رات
سال کے باقی کسی حصے میں ہماری مساجد اتنی پررونق اور آباد نہیں پائی جاتیں جتنی رمضان کے اس حصے میں ہو جاتی ہیں۔ رمضان کے آخری دنوں میں حمد، نعت اور منقبت کے موضوعات بھی الوداعی نوعیت کے ہوجاتے ہیں!
اِلہی رہ گئے رمضاں کے آخِری روزے
رِہائی نارِ جہنم سے ہو عطا یارب!
اِلہی ! رہ گئیں رمضاں کی آخِری گھڑیاں
کرم سے بخش بھی دے ہم کو یاخدا یارب!
ان قیمتی دنوں کو الوداع کہتے ہوئے آنکھیں اس وجہ سے بھی اشکبار ہوجاتی ہیں کہ اسی ماہِ مبارک میں ہمیں قرآن جیسی نعمت میسر ہوئی جو تمام انسانیت کیلئے ہدایت کا باعث ہے۔ اسی کتابِ مجید میں حق و باطل کے درمیان فرق کرنے کی نشانیاں درج ہیں۔
”رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا جو لوگوں کے لیے باعث ِہدایت ہے اور اس میں ہدایت کی اور حق و باطل کے درمیان فرق کرنے کی نشانیاں ہیں”۔ روزہ رکھنے اور تقوی کے حصول کا آپس میں بڑا گہرا تعلق ہے۔ رمضان کے ان دنوں کا خوب فائدہ اٹھانا چاہئے تاکہ رمضان کے بعد آنے والے مہینے بھی رب العالمین کی اطاعت اور محبت میں گزر سکیں۔پاک و ہند کی رمضانی تہذیب میں پکوڑوں اور سموسوں کا بھی بہت زیادہ اثر و رسوخ ہے۔ ان کے ذکرِ خیر کے بغیر، شاید روزہ کا مزہ بھی ادھورا رہ جائے گا۔ امین شارق کی ایک طویل نظم کے یہ چند اشعار یہاں پیش کر رہا ہوں۔
رمضان میں ہوتے ہیں بہت عام پکوڑے
ہر گھر میں ملیں گے تمہیں ہر شام پکوڑے
میں بھی رہوں گا منتظر تحفے کا تمہارے
افطار میں بھیجے ہیں تیرے نام پکوڑے
مانا کہ پھل اور چاٹ کی اپنی ہے حیثیت
تیرا تو ہے سب سے جدا مقام پکوڑے
غربت میں یہ پِسی ہوئی عوام بھی سن لے
بیسن کا ہوا کرتا ہے انجام پکوڑے
شارق کو سموسے بھی پسند ہیں بہت مگر
عظمت کو تیری کرتا ہے سلام پکوڑے
٭٭٭