اجتماعی معاملات میں علماء کرام سے رہنمائی نہ لئے جانے اور ان کے کردار کے محدود ہو جانے میں ایک حد تک مدارس دینیہ میں رائج نصاب تعلیم کا بھی حصہ ہے۔ مروجہ نصاب تعلیم کے ذریعے جو لوگ تیار ہو رہے ہیں ان کا وژن بہت حد تک مکتبی اور ان کی اپروچ بہت ہی انفرادی ہے، ہمیں زیادہ قطعیت کے ساتھ معلوم نہیں کہ الجزائر، مصر، عراق اور دوسرے مسلم ممالک میں کون سا نصاب تعلیم رائج ہے اور وہاں دینی مدارس کا انداز اور اسٹیٹس کیا ہے؟ لیکن برصغیر پاک وہند میں جو ”درس نظامی” رائج ہے اس سے ہم کسی قدرواقف اور آگاہ ہیں، یہ نصاب تعلیم جس دور میں مرتب ہوا اس عہد کے رحجانات علمی اور ترجیحات تمدنی کے عین مطابق ہوسکتا ہے اس لئے کہ اس وقت تک دنیا ابھی ”گلوبل ویلج” نہیں بنی تھی، اس خطے کے لئے جو کچھ سیاست و ریاست اور مذہب ومعاشرت کے لئے درکار تھا وہ درس نظامی مہیا کر رہا تھا لیکن اب اسے پوری طرح نچوڑ بھی لیا جائے تو ایک آدھ لب تر ہوسکتا ہے کسی کی تشنگی نہیں بجھ سکتی ابتدائی فنی کتب کو چھوڑ کر(دین میں صرف ونحو اور منطق کی کتابیں شامل ہیں) منتہی کتب میں سے جو حصہ جس ترتیب سے پڑھایا جاتا ہے اس سے واعظ، جمعہ اور عیدین کے خطیب، روائتی مفتی اور فنی مدرس تو تیار ہوجاتے ہیں لیکن عمرانی مسائل سے کماحقہ واقفیت، مجتہدانہ بصیرت، شرعی احکام و قوانین کا عصری تغیرات اور ضروریات پر اطلاق وانطباق اور تمدنی مصالح سے آگہی جیسی خوبیاں اس نصاب تعلیم اور طرز تدریس سے قطعا پیدا نہیں ہوتیں، مثلا فقہ کی تدریس میں طہارت وضو، اکل وشرب کے آداب، نکاح، طلاق اور پہننے اوڑھنے کے مسائل تو پوری شرح وبسط اور تفصیل وتحقیق کے ساتھ پڑھاتے جاتے ہیں لیکن حدود ومعاملات، بین الاقوامی معاہدوں اور تعلقات، اصول جنگ اور صلح کا باب جہاں سے شروع ہوتا ہے وہاں سے سرسری گزر جانے پر قناعت کی جاتی ہے، بہت کم لوگ ان امور میں مہارت اور ممارست پیدا کر پاتے ہیں، آخر یہی فقہ تھی جو کسی دور میں مختلف ملکوں اور حکومتوں میں پبلک لاء کے طور پر نافذ رہی آئمہ فقہ نے اجتہادی بصیرت اور بڑی جگر کاوی کے ساتھ اخذو استنباط سے کام لیا اور دینی احکام کی تمام علتوں اور مصلحتوں کو خوب واضح کیا تب جاکر یہ فقہ ریاستی دستور العمل کا درجہ پانے میں کامیاب ہوئی اور ایک لحاظ سے فول پروف فقہی نظام رائج ہوا لیکن آج مشکل سے ایک آدھ آدمی ملے گا جو مجتہدانہ بصیرت اور تحقیقی شان کے ساتھ ان احکام کے قالب میں روح عصر سمونے کی صلاحیت سے بہرہ ور ہو ورنہ جو کچھ کتابوں میں ہے اس کا ترجعہ کر دینے کو علم کی معراج سمجھ لیا گیا ہے اور اس کی گردان کو فقہی، بصیرت، یہی صورت دورہ حدیث کی ہے وہاں بھی زیادہ زور فنی مباحث پر رہتا ہے یا اپنے اپنے فقہی مسلک کی تائید پر اور اب تو حال یہ ہے کہ جو جو جس گروہ سے وابستہ ہے وہ ان متنازعہ مسائل کو حدیث کی روشنی میں صحیح ثابت کرنے کو علم الحدیث کہتا اور اپنے آپ کو ”محدث” قرار دیتا ہے حالانکہ حدیث حضورۖ کے قول مقدس اور عمل مبارک کا تاریخی ریکارڈ ہے اور الٰہی نظام اور نبویۖ معاشرت قائم کرنے کا سر چشمہ جب کہ آج دنیا جس فکری الحاد، عملی ارتداد، معاشرتی انحطاط، معاشی استحصال اور تمدنی زوال کا شکار ہے اسے دوبارہ صحت مند اور پاکیزہ اور منصفانہ بنانے کے لئے وہ تمام ضروریات اور تقاضے احادیث رسولۖ اور اسوہ پیغمبرۖ میں موجود ہیں جنہیں بروئے لیکن یہ تفاسیر درس نظامی کا حصہ آج بھی اس لئے نہیں بن سکیں کہ ملا نظام الدین سہالوی کا مرتب کردہ”درس نظامی” حرف آخر قرار پا چکا ہے اور دوسری بات یہ ہے کہ ان کی تفسیروں سے ہمارے علماء کے فرقہ وارانہ مزاج کو بھی تسکین نہیں ہوتی اس لئے ان میں دلچسپی نہیں لی جاتی، ظاہر ہے جو طالب علم اس نصاب تعلیم سے گزر کر اور اس طرز تدریس کے مطابق پڑھ کر عالم بنے گا وہ ایک رخا کردار تو ادا کرسکے گا جامع کردار ادا کرنا اس کے لئے ممکن نہیں ہوگا اس کے نتیجے میں معاشرہ اس کے لئے اجنبی اور وہ معاشرہ کے لئے اجنبی ہوگا۔
٭٭٭٭٭