سیدِنا ابراہیم خلیل اللہ کے بسائے ہوئے شہر مکہ مکرم میں ہمیں آئے ہوئے تقریبا چھ سات روز ہو چکے ہیں۔ پچھلے پچیس تیس سالوں میں یہاں بہت سی بلند قامت عمارتوں کا اضافہ ہوا ہے اور اب یہ شہر، جدید و قدیم کا ایک بہت خوبصورت امتزاج پیش کرتا نظر آتا ہے۔ خود حرم پاک کی عمارت بھی اب کئی منزلہ ہے۔ مکہ مکرم نے بلڈنگز کے ساتھ ساتھ روڈ انفرا سٹرکچر میں بھی خوب ترقی کی ہے۔ بسوں کے ساتھ ساتھ، ٹرین بھی اب پبلک ٹرانسپورٹیشن نیٹورک کا ایک بہت اہم حصہ ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے آئندہ نسلوں کیلئے، اپنے رب سے جو دعائیں مانگی تھیں وہ سب قبولیت کے اعلی درجات تک پہنچیں۔ شہرِ مکہ، لاکھوں اجنبیوں کی میزبانی کرنے کے باوجود، انتہائی پرامن علاقہ ہے۔ خود بنجر زمین کا ٹکڑا ہوتے ہوئے بھی، دنیا بھر کے پھلوں اور سبزیوں کا ہر موسم میں بہت بڑا مرکز رہتا ہے۔ غذا کی کبھی کوئی کمی نہیں آتی۔ یہ بھی دعائے ابراہیمی ہی تھی کہ نبی اکرم ۖ کی آمدِ مبارک اسی شہر میں ہو۔ الحمداللہ، یہاں کی رونقوں میں دن بدن اضافہ ہی ہو رہا ہے۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر ایک کو یہاں کے مبارک سفر کی توفیق بخشے۔ آج جب ہم طوافِ زیار کیلئے حرم پہنچے تو مجھے ٹاپ فلور پر جانے کا شوق ہوا۔ اوپر جا کر اندازہ ہوا کہ یہاں تو طواف بہت طویل ہو جائے گا۔ البتہ یہ آسانی نظر آئی کہ وہیل چیئر کے استعمال پر، اس فلور پر کوئی پابندی نہیں۔ میں نے اور فرزانہ نے وہیل چیئرز والوں کی خدمات حاصل کیں اور نوجوان نسل نیچے مطاف میں طواف کیلئے چلی گئی۔ ہم بھی کچھ دیر بعد طواف اور سعی سے فارغ ہو کر نیچے پہنچ گئے۔ بچوں نے فولڈنگ چیئرز حاصل کر کے ہمارے لئے بیٹھنے کا آرام دہ نظام بنایا ہوا تھا۔ آج کئی گھنٹے خانہ کعبہ کے بالکل قریب بہت اطمینان کے ساتھ بیٹھ کر طویل نشست کی۔ اس بات کی مجھے کبھی سمجھ نہیں آئی کہ بظاہر کھچا کھچ بھرے ہوئے مطاف میں اچانک ہمارے جیسے گنہگاروں کیلئے آرام سے بیٹھنے اور عبادت کرنے کی گنجائش کیسے نکل آتی ہے؟ بہرحال طوافِ سے فارغ ہوئے تو اب ہم دوسرے دن کی رمی کے کرنے کے اہل ہو چکے تھے۔ حرم کے بالکل سامنے ٹاور ہوٹل ہے، جس کا فوڈ کورٹ مغربی ممالک سے آئے ہوئے عازمین حج کیلئے ایک بہت بڑی نعمت سے کم نہیں۔ مکہ کے قیام کے دوران، شاید ہی کوئی دن ایسا گزرا ہو، جب ہم نے اس فوڈ کورٹ سے استفادہ نہ کیا ہو۔ آج امریکہ سے آئے ہوئے کچھ جان پہچان کے عازمین حج سے بھی یہیں ملاقات ہوگئی۔ ایک فوٹو تو ٹوپیوں کے ساتھ بنا لیکن دوسرا فوٹو ٹنڈ والا بھی بنایا گیا۔ پوری دنیا سے آئے ہوئے حجاج کرام کے منڈوائے ہوئے سروں کا جائزہ لیں تو مختلف النوع ہیتیں دیکھ کو بڑی حیرت ہوتی ہے۔ میرا تعلق میانوالی کے ایک ایسے خاندان سے ہے جہاں آج بھی بچے کی پیدائش کے بعد اس کے سر کو بٹھایا جاتا ہے۔ یعنی مٹی کے ایک سانچے کے ذریعے کئی ماہ تک سر کو ایک خوبصورت شکل دینے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اب جب میں اپنا اور بیٹوں کی ٹنڈوں کا جائزہ لیتا ہوں ہو تو اندازہ ہوتا ہے کہ واقعی ہماری امیوں نے ہمارے سروں کے ساتھ جو محنت کی تھی، اس کی بدولت آج ہم ساری اقوامِ عالم کے سامنے فخر سے سر اٹھانے کے قابل ہیں۔ انتہائی گرم موسم میں مناسک حج کی ادائیگی کے دوران، وقفے وقفے سے آرام بہت ضروری ہوجاتا ہے۔ موسم کی صورتحال کو سمجھتے ہوئے، ہم نے بھی حج کے مناسک آرام آرام سے ادا کئے۔ بہرحال، خراماں خراماں، آخر آج ہماری جمارات کی تیسری رمی بھی مکمل ہوگئی۔ اس سفرِ حج کے دوران، حکومت کی جانب سے کئیے گئے، بہت سارے انتظامات کے باوجود بھی ایسا محسوس ہوتا رہا کہ عازمین حج کیلئے ابھی اور بھی بہت کچھ کرنا باقی ہے۔ ہم آج مسجدِ الخیف والے راستے سے جمارات کی طرف گئے تو اندازہ ہوا کہ صفائی کے انتظامات بالکل ٹھیک نہیں تھے۔ یہ ضرور ہے کہ کئی منزلہ عمارتیں بننے کے بعد جمعرات کو کنکریاں مارنا خاصا آسان ہو گیا ہے۔ لیکن ابھی بہت کچھ کرنا باقی بھی ہے۔ ویسے آپس کی بات ہے، شیطان کو زور زور سے کنکریاں مارنے کا مزہ بڑا آتا ہے۔
ہمارے حج گروپ کے طے شدہ شیڈول کے مطابق ہمیں بیس جون کو مکہ سے مدینہ جانا تھا اور پھر اگلے ہی دن ہماری وہاں سے امریکہ کی واپسی کی فلائیٹ تھی۔ مکہ مکرم میں چونکہ ہم اٹھارہ جون کو ہی آخری رمی کر چکے تھے، اس لئے طوافِ وداع کر کے ہم اب مدینہ منور کی جانب جاسکتے تھے۔ ہمارے منصوری ساتھی، مطیع اللہ ہاشمی صاحب نے اپنے اثر رسوخ سے ایک قابلِ، ماہر اور قابلِ اعتماد ڈرائیور اور ایک جدید ترین بڑی وسیع القلب گاڑی کا بندوبست کر دیا۔ عمران صدیقی صاحب نے اسپیشل درخواست کرکے معلم اور گروپ منتظمین سے ہمیں پاسپورٹ لے دئیے۔ اور اس طرح ہم نے اپنے گروپ سے علیحدہ ہو کر ایک دن پہلے ہی مدینہ کا رختِ سفر باندھ لیا۔ سارے انتظامات مکمل کرنے کے بعد جب ہم طوافِ وداع کیلئے حرمِ پہنچے تو اندازہ ہوا کہ اللہ کے گھر کو الوداع کہنا کوئی آسان کام نہیں۔ یہ تو شکر ہے کہ ہم مکہ سے مدینہ جارہے تھے، لیکن پھر بھی خانہ کعبہ کو اللہ حافظ کہنا کوئی آسان مرحلہ نہیں تھا۔ جنابِ افتخار عارف کے ان چند اشعار نے کچھ ہماری بھی ترجمانی کر دی ہے۔
ربِ کعبہ کی طرف اذن و عنایت سے گیا
شکرِ نعمت کو گیا، قصدِ زیارت سے گیا
سارے اسباب تو پہلے سے مبہم ہو چکے تھے
حکم کی دیر تھی، حکم آیا تو عجلت سے گیا
میں غلاموں کی قطاروں میں کھڑا آخری شخص
بابِ رحمت کی طرف بابِ امانت سے گیا
کہیں گریہ کیا پیہم ادب آداب کے ساتھ
کہیں وارفتگی شوق کی شدت سے گیا
٭٭٭