پلاننگ!!!

0
136
عامر بیگ

فلپائن میں مسافروں کو لانے لے جانے کے لیے انکے اپنے ملک میں ہاتھ سے بنی گاڑی جسے جیپنی کہا جاتا ہے تقریبا ہر جگہ اور ہر شہر میں استعمال کی جاتی ہے، یہ آگے سے جیپ کی شکل میں ہوتی ہے اور پیچھے بیٹھنے والا حصہ جسے لمبا کر لیا جاتا ہے تاکہ جیپ سے زیادہ لوگ بیٹھ سکیں اور اس میں آمنے سامنے بیٹھنے کے لیے لمبی کشن کی دو بینچیں لگا دی جاتی ہیں جہاں مسافر بیٹھتے ہیں، مسافر بیک سے چڑھتے اور اترتے ہیں جیپنی کے باہر آگے تین اطراف میں پاکستان میں ٹرکوں اور کراچی میں چلنے والی فلائنگ کوچز کی طرز کی رنگ برنگی نقش نگاری کر دی جاتی ہے یہی جیپنی گھریلو استعمال کی سواری کے طور پر بھی استعمال ہوتی ہے ۔بڑے لوگ شو شا کے لیے اس پر دل کھول کر خرچ کرتے ہیں اور اپنی حیثیت کے مطابق اس کو کسٹم میڈ بنا لیتے ہیں، ایسی ہی مسافر جیپنی میں مجھے بھی متعدد دفعہ بیٹھنے کا اتفاق ہوا ایک عرصہ تعلیم کی غرض سے وہاں گزرا، آخری دنوں میں جیپنی میں سوار ہوا تو میں نے دیکھا کہ میری پینٹ کی پچھلی جیب کا بٹن نیچے میرے پیروں کے درمیان پڑا ہے۔ بلا اختیار میرا داہنا ہاتھ پینٹ کی پچھلی جانب لگی دائیں جیب کی طرف گیا تو مجھے وہاں میریپرس کا ابھار محسوس نہیں ہوا میرے ہاتھوں کے طوطے اڑ گئے اس پرس میں میری واپسی کی ٹکٹ کے ڈالرز کریڈٹ کارڈز میری یونیورسٹی کی آئی ڈی اور میری مرحومہ مغفورہ والدہ کی ایک نایاب تصویر تھی جسے میں دیکھ کر انکی دی ہوئی نصیحتیں یاد کیا کرتا تھا یہ سب غائب پا کر میں نیشور مچا دیا الٹے ہاتھ پر آگے کی جانب ڈرائیور سیٹ پر بیٹھے ڈرائیور نے جیپنی ایک طرف روک دی میرے ساتھ پیچھے بیٹھے ایک شخص نے با آواز بلند مشورہ دیا کہ یہاں نزدیک ہی پولیس سٹیشن ہے تمہیں فورا وہاں جا کر رپورٹ درج کروا دینی چاہئیے ڈرائیور نے بھی ہاں میں ہاں ملائی تو میں جیپنی سے نیچے اتر گیا پولیس سٹیشن پہنچا آفیسر کو ماجرا بیان کیا تو اسکا پہلا سوال یہ تھا کہ تمہیں جیپنی میں سے کسی شخص نے وقوعہ کے فورا بعد یہاں آنے کا مشورہ دیا تھا میں نے ہاں میں سر ہلایا تو اس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ نمودار ہو گئی۔ اس پولیس آفیسر کے الفاظ آج بھی میرے حافظے میں محفوظ ہیں کہنے لگا کہ یہی تو ! جرم کی دنیا میں سبھی ملے ہوئے ہوتے ہیں ،ڈرائیور سے لیکر کر جیب کترے تک انکے حواری اوبجیکٹ کی نشاندہی کرنے والے ہاتھ کی صفائی دکھانے والے اور اسکے بعد مشورہ دینے والے یہ سب ایک گروہ کی شکل میں واردات ڈالتے ہیں۔ اب دیکھیں چھوٹے سے جرم کے لیے اتنی بڑی پلاننگ سوچیں بڑے بڑے جرائم کے لیے کتنی بڑی موثر پلاننگ اور گروہ بندی ہوتی ہوگی کہ کس طرح سے اوبجیکٹ کو تلاش کرنے والوں کی ایک یا کئی ایک ٹیمیں ترتیب دی جاتی ہوں گی پھر گھیرنے کے لیے واردات ڈالنے کے لیے اور پھر وقوعہ ہو جانے کے بعد کی پلاننگ اور اس پلان کو ایگزیکیوٹ کرنے کے لیے مختلف افراد کی ضرورت اور ٹیم فارمیشن پھر مال غنیمت کو ٹھکانے لگانے اور ان سب کو مربوط رکھنے کے لیے بھی پلاننگ اور ٹیمیں سوچیں سوچیں اور اچھی طرح سے سوچیں کہ حکومتیں گرانے اور بنانے کے لیے کس قدر پلاننگ افراد اور سرمایہ کی ضرورت ہوتی ہوگی بہترین دماغ افراد اور سرمایہ بعض دفعہ تو ادارے بھی اس کار خیر میں اپنا حصہ ڈالتے ہیں اور پھر حصہ بقدر جثہ وصول کرتے ہیں اپنی حکومتیں بھی جیسے عمران خان کے دور حکومت میں اس وقت انکی ہزار ہا کوششوں سخت محنت اور لگن کے باوجود انکی تیزی سے کم ہوتی ہوئی پاپولیریٹی وجہ چاہے کچھ بھی ہو آج خان شہرت کی عظیم بلندیوں کو چھو رہا ہے ،آخر پلان کامیاب ہوا ہر ایک ننگا ہوا عوام کے کان اور آنکھیں کھلیں اب قوم بہتر طریقے سے فیصلہ کرے گی کہ کون کیا ہے اور کون کیا کر سکنے کی اہلیت رکھتا ہے، کھرا ڈھونڈنے والے واردات میں سب سے زیادہ فائدہ حاصل کرنے والے پر ہی سب سے پہلے نظر ڈالتے ہیں اور ضروری نہیں کھرا صرف چور یا چوری کا مال برآمد کرنے کے لیے ڈھونڈا جائے اچھے کاموں کے لیے بھی کھرا نکالا جا سکتا ہے اسکے لیے بھی پلاننگ کی ضرورت ہوگی۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here